کچھ لوگ چاہتے ہیں سیاسی تقسیم، نفرت برقرار رہے، ایک دوسرے کو غدارکہیں گے تو ملک کیسے چلے گا: بلاول

حیدر آباد+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+نمائندہ خصوصی) پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے، اب ہمیں اس بخار کو توڑنا ہوگا۔  بلاول بھٹو زرداری نے شیخ ایاز میلے کے شرکاء  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شیخ ایاز میلے میں آکر خوشی ہوئی ہے، یہ 9 واں میلا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے، اگر ہم شاعر، آرٹسٹ اور کلچر کو اجاگر نہ کریں گے تو پاکستان نہیں چل سکے گا، اگر ہمیں جدید ماڈرن ملک بنانا ہے اور مسائل اور خطروں کا مقابلہ کرنا ہے اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں ظلم بہت ہوا، سب سے بڑی زیادتی یہ نہیں کہ خود اپنے ہاتھوں سے بڑے لیڈروں کو قتل کیا گیا، بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے تاریخ، ثقافت اور زبان کو دبایا۔ نوجوان قلم کے بجائے ہاتھوں میں بندوق تھام لیتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں پاکستان کو اس سمت لے جائیں جہاں تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کریں۔ میں نوجوان وزیر خارجہ رہا ہوں، میرا خواب اور ویژن ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ، کشمیر اور پنجاب کے نوجوان شیخ ایاز کو جانیں جیسے سندھ کے نوجوان علامہ اقبال کو پہچانتے ہیں، اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ ملک کے شاعر، دانشور اور نوجوان جاگ جاتے ہیں تو آپ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسندی کی سوچ کو ایک حد تک روکا گیا ہے، اگر ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو غدار، کافر کہے گی تو کیسے ملک کو چلائیں گے، عوام کی مدد سے ہائپرپولرائزیشن کے بخار کو توڑنا پڑے گا، سیاست کا مقصد ذاتی دشمنی نہیں ہونا چاہئے، پیپلزپارٹی میں صلاحیت ہے سب کو ساتھ لیکر چل سکتی ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں تقسیم، نفرت رہے، ہمیں مل کر تمام خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، اگر ہم ایسا کریں گے تو دمادم مست قلندر اور ہو جمالو کا نعرہ لگا کر مقابلہ کرسکتے ہیں، تقسیم میں نہیں اتحاد میں جیت ہے، اگر نوجوانوں متحد ہوگئے تو تقسیم کی سیاست کرنے والوں کو شکست ہوگی۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں گولی اور بندوق کے بجائے قلم تھمانا ہوگی، ہم نے پاکستان کو ایک جدید ملک بنانا ہے، ملک کے دانشور، شاعراور نوجوان جاگ جائیں گے تو ان کا راستہ پھر کوئی نہیں روک سکتا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ہمیں متحد ہونا ہے۔ سندھ میں انتہا پسندی کو ایک حد تک روکا گیا‘ اس کی وجہ یہاں کی ثقافت کو آگے بڑھانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن