ارتقاءنامہ …سیّد ارتقاءاحمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com
آج سے آٹھ سوسال پہلے چنگیز خان منگول سلطنت کا بادشاہ تھا، اس نے سمرقند اور بخارا کے حکمران سلطان خوارزم شاہ سے دوستانہ مراسم قائم کرنے کے لیے تاجروں کا ایک وفد تجارتی سامان اور خوارزم شاہ کے لئے تحائف دے کر بخارا بھیجا۔ راستہ میں ایک قصبہ کے سربراہ کی نیت خراب ہوگئی ، اس نے وفد کے سربراہ کو قتل کر دیا۔ تجارتی سامان اور تحائف لوٹ لئے۔چنگیز خان کو بہت غصہ آیا اس نے ایک سفارتی وفد بھیجا جس کی سربراہی چینگز خان کا بہترین سفیر کررہا تھا۔ چنگیز خان نے اپنے مراسلے میں لکھا کہ خوارزم شاہ تمہارے قصبہ سربراہ نے میرے بھیجے ہوئے تحائف اور تجارتی سامان لوٹ لیا ہے اور تجارتی وفد کے سربراہ کا سر قلم کردیا ہے لہذا میں مطالبہ کرتا ہوں کہ قصبہ سربراہ کو سزا دی جائے۔ لوٹا ہوا مال اور وہ تحائف جو میںنے تمہارے لیے بھیجے تھے واپس کئے جائیں۔ مقتول کا ہر جانہ ادا کیا جائے۔
خوارزم شاہ بخارا اور سمر قند کا سلطان تھا جسکی کی سلطنت منگولوں کے مقابلے میں بہت طاقت ور تھی۔ خوارزم شاہ چنگیز خان کا مکتوب پڑھ کر آگ بگولہ ہوگیا اور کہا کہ منگولوں کی چھوٹی سی حکومت کے سربراہ کی اتنی جرا¿ت کیسے ہوئی کہ بخارا اور سمر قند کی شاندار سلطنت کے سلطان کو ایسا ہتک آمیز خط بھیجے اس نے سفیر کا سر قلم کرکے چنگیز خان کو بھجوا دیا اور لکھا کہ یہ ہے جواب آپ کے مراسلے کا…!! چنگیز خان کو خوارزم شاہ سے یہ امید نہیں تھی کہ ایک مسلمان سربراہ مملکت سفارتی آداب کو اس حد تک پامال کرے گا، اس نے جنگجوو¿ں کو اکٹھا کیا اور بخارا پر کئی اطراف سے زبردست حملہ کردیا۔ بخارا کی سب سے بڑی جامع مسجد میں گھوڑے سمیت گھس گیا اور ممبر پر بیٹھ کر کہا کہ اے بغداد کے لوگوں میں تمہارے لئے قہر الہی بن کر آیا ہوں کیونکہ تم جس خدا کے ماننے والے ہو اسی کے حکم کی تم نے نافرمانی کی ہے۔ اسلام میں تاجروں کو لوٹنے اور سفیر کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ تم نے خود اپنے مذہب کی تعلیمات کے خلاف کام کیا ہے لہذا سزا بھگتنے کے لیے تیار ہو جاو¿۔ پھر اس نے اپنی فوج کو قتل عام کرنے کا حکم دیا۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ افراد قتل کئے گئے پھر اس نے سمر قند اور گرگج میں قتل وغارت مچائی۔ گرگنج میں نہ صرف اس نے انسانوں کو قتل کیا بلکہ تمام مویشی بھی ہلاک کر دئیے۔ اس نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے اس نے آس پاس کے علاقوں میں بھی تباہی مچائی اور کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ منگولوں کی قتل وغارت کا یہ سلسلہ چنگیز خان کی 1227 میں وفات کے بعد بھی جاری رہا۔ چنگیز خان کے پوتے اور تولوئی خان کے بیٹے ہلاکو خان نے 1258 میں بغداد پر چڑھائی کر دی اور 12 لاکھ انسانوں کو قتل کر دیا۔ بغداد اس وقت علم وادب تہذیب وتمدن کا گہوارہ اور اہل دانش کا شہر تھا۔وہاں بے شمار لائبریریاں تھیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں تھیں جن بے شمار نایاب کتب بھی تھیں اس نے تمام لائبریوں کو جلا کر تباہ کر دیا اور کتابیں دریا برد کر دیں۔ کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ دریا کا پانی سیاہی مائل ہوگیا۔
بغداد کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اس نے 1260 میں مصر اورشام میں قتل غارت کا بازار گرم کیا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی برکے Berke خان مسلمان ہوگیا اور اس نے ہلاکو خان کے خلاف مصر کے سلطان رکن الدین کو خط لکھ کر مدد مانگی۔ وہاں سے مثبت جواب آیا، سمر قند اور بخارا کے مسلمان جی برکے کے ساتھ ملکر ہلاکو خان کے خلاف لڑے اور 1265 میں ہلاکو خان مارا گیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ آج نتن یاہو غزہ میں بمباری کرکے بے یاررمددگار فلسطینوں ' بے بس عورتوں اور معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کررہا ہے اور مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہاہے کہ پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں کی حکومتیں بھی آپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی بھی بے بس ہے۔شطرنج میں اگر وزیر اور زندگی میں اگر ضمیر مر جائے تو پھر کچھ نہیں بچتا!!