شبنم بریال ہلاکت کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دو رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران آئی جی پنجاب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صوبے کی جیلوں میں تئیس سو چھ قیدی ایسے ہیں جن کے چالان پیش نہیں کیے جاسکے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ قیدیوں کے معاملے کو مذاق نہ سمجھا جائے۔ پولیس اور پراسیکیوشن تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں جبکہ ایک ہزار گنجائش کی جیلوں میں چار چار ہزار قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ قیدی بھی انسان ہیں پولیس افسران کو ان کے حقوق کا علم ہونا چاہیئے۔ محکمے کے آپس کے اختلافات کی سزا قیدیوں کو نہیں ملنی چاہیئے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیس پولیس کمزور بناتی ہے جبکہ الزام عدالتوں پر آجاتا ہے۔ عدالت نے تھوڑی جگہ پر ذیادہ قیدی رکھنے پر ہوم سیکرٹری سے کل جواب طلب کرلیا ہے جبکہ سول جج سیف اللہ تارڑ کی جانب سے ملزمان کا بلاوجہ ریمانڈ دینے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپیکشن ٹیم کو انکوائری کا حکم بھی دیا ہے۔ ادھرآئی جی پنجاب کو صوبے کی جیلوں میں بغیر چالان کے قید ملزمان کے جرم کی نوعیت کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت تئیس فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔