میمو کمیشن نےمنصوراعجازکےبیان پر حسین حقانی کےوکیل کے اعتراضات کومسترد کردیا،کمیشن کی کارروائی کل دوپہردوبجےپھرہوگی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت میمو کمیشن کااجلاس ہوا،میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار منصور اعجازنے لندن میںپاکستانی ہائی کمیشن میںاپنا بیان حلفی ریکارڈ کروایا۔ لندن میں مصطفیٰ رمدے،رشیداے رضوی سمیت سیکریٹری میموکمیشن راجہ جوادعباس پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود تھے ۔منصور اعجاز کے بیان کو ویڈیو لنک کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ریکارڈ کیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ان سے حلف لیا جس میں منصور اعجاز نے کہا کہ وہ جو شواہد پیش کر رہے ہیں وہ ان کے مطابق درست ہیں اور وہ سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے، اگر وہ جھوٹ بولیں تو ان پراللہ کا قہر نازل ہو۔ اس موقع پر کمیشن نے منصوراعجاز سے سوال کیا کہ کیا آپ اردو بول سکتے ہیں۔ جس پر منصور اعجاز نے جواب دیا کہ نہیں وہ اردو نہیں بول سکتے۔ بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے منصور اعجاز نے حسین حقانی کیساتھ ہونے والے رابطے اور تمام تر گفتگو کی تفصیلات فراہم کیں۔منصوراعجازنے حسین حقانی کاای میل ایڈریس بھی کمیشن کودیدیا۔ اسکے علاوہ منصوراعجاز نے اہم شواہد سیکریٹری میموکمیشن کے حوالے کردیئے جبکہ لندن میں موجود سیکریٹری کمیشن کی جانب سے حسین حقانی اور منصور اعجازکے پیغامات کی تصدیق بھی ہوئی۔اجلاس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور زاہد بخاری کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز کا بیان مجوزہ طریقے سے ریکارڈکیا جائے۔شارٹ ہینڈ میں بیان ریکارڈ کیا گیا تو بعد میں بدلنے کا خدشہ ہے۔ قانونی طور پربیان اردو یا انگلش میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ وہ یہاں بیٹھ کر جرح نہیں کر سکتے ، انہیں بیرون ملک جا کر جرح کی اجازت دی جائے۔ اس پر جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ بیان ریکارڈہورہاہے،عدالتی کارروائی میں خلل نہ ڈالیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلیک بیری کمپنی نے ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔جس پر منصور اعجاز نے کہا کہ آپ کمپنی سے رابطے کی پہلی سٹیج پر ہیں اور میں تیسری سٹیج پر ہوں ۔
منصور اعجاز نے اپنا ٹیلیفون بل بھی کمیشن کو پیش کیا۔ اس پر زاہد بخاری نے اعتراض اٹھایا کہ یہ بل اصلی نہیں نقلی ہے۔ اصل بل انتالیس صفحات پر مشتمل ہے جبکہ اس کے صرف تین صفحات ہیں۔ اس پر منصور اعجاز نے کہا کہ کمپنی نے بل ای میل کے ذریعے بھجوایا ہے ۔ ان تین صفحات پر حسین حقانی کو کی گئی کالز کا ریکارڈ ہے۔ منصور اعجاز نے کہا کہ حسین حقانی اور جیمز جونز کے فون نمبرز کے علاوہ دیگر نمبرز پبلک نہ کئے جائیں جس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ دیگر نمبر کونسے ہیں ، فائز عیسے نے منصور اعجاز کو ہدایت کہ کہ ان پر لائن لگا کر بل کمیشن کے سیکرٹری کے حوالے کر دیں۔ کمیشن نے ہدایت کی کہ منصور اعجاز بل والی ای میل سیکرٹری کمیشن کو بھیجیں گے جو سیکرٹری کمیشن دیکھے بغیر کمیشن کو بھجوائیں گے
حسین حقانی کے وکیل نے پھر اعتراض اٹھایا کہ منصوراعجاز کے پاس کوئی تحریری بیان نہیں،جو کہ ضروری ہے۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ منصوراعجاز کے زبانی بیان پرتصدیق کیلئے بطوروکیل وہ بیان حلفی دینگے۔ زاہد بخاری نے دوبارہ اعتراض اٹھایا کہ کمیشن انکے اعتراضات لکھ کربےشک مستردکردے۔زاہد بخاری کی بار بار مداخلت پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اظہار برہمی کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانونی شہادت کے تحت فریقین کوکراس سوال کرنیکی اجازت ہے۔اس پر بیرسٹرظفراللہ نے کمیشن کو ہدایت کی کہ منصوراعجازکے بیان کوتحریری شکل دی جائے۔کمیشن نے منصور اعجاز سے استفسار کیا کہ کیا وہ اگلی سماعت پر حاضر ہو سکتے ہیں جس پر منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ وہ بخوشی حاضر ہو جائیں گے اسکے بعدکمیشن نے کیس کی سماعت جمعرات دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دی

ای پیپر دی نیشن