مصّورِ پاکستان علّامہ محمد اقبال نے ، متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کا خواب دیکھا اور کہا ....
” سُلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہن ، تُم کو نظر آئے مٹا دو !“
پاکستان میں ۔” سُلطانی ءجمہور “۔ کا دور کئی بار آیا ، لیکن نقش ہائے کُہن مِٹائے نہیں جا سکے ۔ اِسی لئے۔” سُلطانی ءجمہور “۔کے نام سے سُلطانی کرنے والوں کے نام نقش بر آب ہو گئے۔ بقول شاعر ....
” نقش بر آب ہیں، سب تاج و نگِیں، شاہوں کے
کِس کا ، دُنیا میں سدا ، نام و نشاں رہتا ہے ؟ “
صدر زرداری نے لاہور میں، حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دے کر ثواب تو کما لِیا ، لیکن اُن کے کسی مُشیر نے انہیں ، لاہور ہی میں مدفون ، متحدہ ہندوستان کے دو بادشاہوں سُلطان قُطب اُلدّین ایبک اور نور اُلدّین جہانگیر کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دِیا ۔ قُطب اُلدّین ایبک اپنی سخاوت اور کرم گُستری کی وجہ سے ۔” لکھ بخش“۔ مشہور تھا اور نوراُلدّین جہانگیر ۔” زنجیرِ عدل“ ۔ کی وجہ سے ۔
لکھ بخش ایبک اور عادل جہانگیر اور اُس کی قبر کے ساتھ ہی، دوسری قبر میں محوِ آرام اُس کی ملکہ، نور جہاں بیگم کے تاج و نگِیںنقش بر آب ہو گئے ۔ شاعرہ نور جہاں کی قبر پر لِکھا ہے....
” بر مزارِ ما غریباں نے چراغے ، نے گُلے “
یعنی ہم غریبوں کے مزار پر کوئی چراغ نہیں جلاتا اور نہ ہی پھول چڑھاتا ہے ۔علّامہ اقبال ۔ قائدِاعظم اور۔ مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناح کے مزاروں پر، اُن کی سالگرہ اور برسی پر پھول چڑھائے جاتے ہیں ۔ ذُوالفقار علی بھٹّو اور محترمہ بے نظیر بھٹّو کی قبروں پر بھی ، لیکن انہیں پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک سمجھ کر ۔ اُن کے سِوا سارے مرحوم فوجی اور سیاسی حُکمرانوں کی قبریں ویران ہیں ۔”سُلطانی ءجمہور “۔کے تصّور کو عام کرنے میں ،ذُوالفقار علی بھٹّو نے اہم کردار ادا کِیا ۔ غریبوں کے حق میں انقلاب برپا کرنے کا وعدہ کِیا ۔ اقوامِ متحدہ میں ،مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے ،ایک ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا اور قوم کے ہِیرو بن گئے ۔
1970ءکے انتخابات سے قبل جب روایت پسند سیاسی جماعتیں 1956ءکا آئین بحال کرنے پر زور دے رہی تھیں تو بھٹّو صاحب کہا کرتے تھے کہ: ” کیا چھپّن چھپّن کی رٹ لگائی جا رہی ہے ؟۔ آئین۔ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتا ۔ آئین ۔نان اور چپّل کباب نہیں بن سکتا“ ۔ بھٹّو صاحب سویِلین چیف مارشل لاءایڈ منسٹریٹراوراُس کے بعد ، منتخب صدر اور وزیرِاعظم رہے لیکن ۔ انہوں نے” سُلطانی ءجمہور“۔ قائم نہیں کی ۔ جنرل ضیاءاُلحق اور جنرل پرویز مشرف تو ۔” سُلطانی ءجمہور“۔ کے قائل ہی نہیں تھے ۔
”قائدِ عوام اور دُخترِ مشرق“۔سے ،سب سے بڑی غلطی یہ ہُوئی (یا انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کِیا) کہ اقتدار میں آکر، پاکستان پیپلز پارٹی کو ۔” حکومتی پارٹی“۔ تو بنا دِیا ،لیکن: ”حُکمران پارٹی“۔ نہیں بنایا۔ جب پارٹی میں۔ ”سُلطانی ءکارکُنان“۔ قائم نہیں ہو سکی تو ”سُلطانی ءجمہور“۔ کیسے قائم ہوتی؟ صدر زرداری نے بھی بھٹّوز کی روایت کے مطابق، پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر عہدے پر نامزدگی کی، چنانچہ، لاہور ہائی کورٹ میں، وفاق (دراصل صدر زرداری) کے وکیل جناب وسیم سجّاد کو کہنا پڑا کہ: ”صدر زرداری جِس پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین ہیں وہ ایک پرائیویٹ سیاسی ایسوسی ایشن ہے“۔
جناب ذُوالفقار علی بھٹّو اور محترمہ بے نظیر بھٹّو کی طرح ، صدر زرداری نے بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ شہادتوں کی داستانیں سُنا سُنا کر بھوکوں کے پیٹ بھرنے کا تجربہ کِیا جو، ناکام ہو گیا۔ ”پہلی مرتبہ جمہوری حکومت کی مقررہ مُدّت پورا کرنے کا کریڈٹ لِیا اور آئین کی بالادستی کا بول بالا کرنے کا بھی“۔ لیکن پاکستان کا آئین بھوکوں کو روٹی۔ ننگوں کو کپڑا۔ اور بے گھروں کو مکان نہیں دے سکا اور نہ ہی جان کی امان۔ عام لوگوں کو بھٹّو خاندان کی شہادتوں سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، اب۔ ہر گھر کی داستان شہیدوں کی داستان بن گئی ہے۔سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے اتحادیوں نے۔ ”سُلطانی ءجمہور“۔ کے ذریعے اقتدار کے ثمرات سمیٹے، لیکن ٹارگٹ کِلرز اور دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم اور بے گناہ لوگوں کی شہادتوں کو روکنے میں دلچسپی نہیں لی۔ وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک (اور اُن کے ماتحت تمام اداروں کے سربراہ)۔ شرمندہ ہی نہیں ہوتے، استعفیٰ دیناتو دُور کی بات ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی قیادت میں، بلوچستان میں تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی۔ لُوٹ مار میں رِندان اور زہدان ، ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہے،لیکن عام انسانوں کی جان محفوظ نہیں رہی۔ پنجابی آباد کاروں کو چُن چُن کر شہید کِیا گیا اور پھِر ہزارہ قبائل کے لوگوں کو۔ گورنر راج کے نفاذ کے بعد ساری ذمہ داری صدر۔ ”آصف علی“اور گورنر۔ ”ذُوالفقارر علی“۔ کی ہے، لیکن یہ دونوں۔ ”علیؓ“۔ کے ماننے والوںکی شہادتوں کو نہیں رُوک سکے ۔
صدر، وزیرِاعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کی ملاقات کے بعد وزیرِ قانون فاروق۔ ایچ۔نائیک نے پھِر۔ ”آئین اور بلوچستان میں آئینی حکومت کی بحالی“۔ پر زور دِیا ہے۔ جناب فاروق نائیک فرماتے ہیں۔ ”کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ سیاستدانوں کا ہے۔ گورنر راج ختم کرنے اور صوبائی حکومت بحال کرنے پر غور ہُوا۔ چیف آف آرمی سٹاف چاہتے ہیں کہ انتخابات بر وقت ہوں۔ بلوچستان کا نیا وزیرِ اعلیٰ جلد منتخب کر لِیا جائے گا۔ بلوچستان میں نگران وزیرِاعلیٰ منتخب کرنے کے لئے وہاں وزیرِ اعلیٰ اور قائدِ حِزبِ اختلاف کا ہونا ضروری ہے“۔ شاعر احمد فراز نے کہا تھا کہ....
”ہم بادہ گُساروں کو ہے ، مَیخانے سے مطلب
تُم، مسندِ ساقی پہ، کسی کو بھی، بِٹھا دو !“
آئینی تقاضے کے مطابق۔ بلوچستان میں وزیرِ اعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف کا موجود ہونا۔ ”مطلب پرست، سیاسی بادہ گُساروں“۔ کا مسئلہ ہے، لیکن جن لوگوں کے پیارے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہُوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
”اُن کی بلا سے بُوم رہے، یا ہُما بسے “
سینیٹربیرسٹر اعتزاز احسن کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ۔ ”اگر محترمہ بے نظیر بھٹّوکے قاتلوں کو سزا نہ دی گئی تو عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکُن ہمارے گریبان پکڑیں گے“۔ حیرت ہے کہ حُکمران پارٹی کے ہر شخص کو ،انتخابات ، آئین کی پاسداری اور جمہوریت (سُلطانی ءجمہور) کی تو فکر ہے، لیکن کسی کو بھی، اپنی آخرت کی ذرّہ بھر فکر نہیں۔ یہ کیسا۔ ”دورِ سُلطانی ءجمہور“۔ ہے کہ جِس میں جمہور کی شہادتیں ہی شہادتیں ہورہی ہیں اور اِس کے سِوا جمہور کے لئے کُچھ نہیں ہورہا ۔