گوادر بندرگاہ کا کنٹرول چین کے حوالے کرنے کی خوشخبری رُلا دینے والی اور دہلا دینے والی خبروں کے ہجوم بدتمیزی بلکہ بڑی خبروں کے مظاہرے میں کسی زخمی پرندے کی چہکار جیسی ہے۔ یہ صدر زرداری کی کوئی گہری معرکہ آرائی ہے جس کیلئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستان کا نیا زمانہ انہیں اس وجہ سے یاد رکھے گا۔ میں انکا نقاد ہوں اور انکا دوست بھی سمجھا جاتا ہوں۔ میں ان سے خفا نہیں نہ مایوس ہوں کہ میں انکی پارٹی میں نہیں۔ انہوں نے سیاسی کامیابیوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ وہ حیران اور پریشان کردینے والے پکے سیاستدان بن کر ابھرے ہیں۔ جن لوگوں نے بے نظیر بھٹو کو دو اڑھائی سال نہ چلنے دیا وہ اپنی باری لینے کے شوق میں صدر زرداری کی درپردہ یاری میں مبتلا ہوگئے بلکہ ملوث ہوئے۔ انکی حکومت کے پانچ سال پورے کرکے ایک سیاسی تاریخ بنائی۔ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اور سرکاری اپوزیشن کے دوستانہ مذاق میں پھنس کر رہ گئی۔اب گوادر پورٹ کیلئے اچھی خبر آئی ہے کہ وہ چین کے کنٹرول میں دیدیا گیا ہے۔ یہ امریکی غلامی سے آزاد ہونے کی ایک سیاسی کوشش ہے۔ یہ کسی حکمران کی جرا¿تمندانہ پاکستانی سوچ کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ ہماری آزاد خارجہ پالیسی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس سے پہلے صدر زرداری چین کے کئی سفر کرچکے ہیں۔ جنرل کیانی بھی چین جاچکے ہیں۔ یہ ایک خواب کی طرح کی بات ہے۔ فرانسیسی نقاد آندرے ژید نے کہا تھا کہ کسی تخلیقی کامیابی کے دومآخذ ہیں، سفر اور خواب۔ صدر زرداری روس بھی گئے، اس حوالے سے الگ کالم میں دل کی بات کروں گا۔پچھلی دفعہ جنرل مشرف نے امریکہ کی خوشنودی کیلئے گوادر پورٹ سنگاپور کو دیدیا تھا۔ وہ ناکام ہوگیا، شاید امریکہ ایسا ہی چاہتا تھا مگر اس میں امریکہ کی اپنی ناکامی بھی چھپی ہوئی تھی۔ تب کوئی پاکستانی سیاستدان نہ بولا تھا۔ ہمارے سب سیاستدان امریکہ سے ڈرتے ہیں اور اب بھارت سے بھی ڈرتے ہیں۔ گوادر پورٹ چین کو ملنے سے امریکہ اور بھارت دونوں بڑے پریشان اور مایوس ہوئے ہیں۔ سب سے جرا¿تمندانہ بات پارلیمنٹ میں سنیٹر رضا ربانی نے کی ہے۔ یہ کسی عام آدمی کی جرا¿ت اظہار نہیں ہے۔ رضا ربانی ایک دلیر دانشور، معتبر اور ممتاز سیاستدان ہیں۔ وہ حکومتی پارٹی کے اہم رہنماءہیں۔ ایک تو انہوں نے کہا کہ جس دن گوادر پورٹ چین کے حوالے کیا جا رہا تھا، اسی دن کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کی شیعہ برادری پر قیامت توڑی گئی۔ یہ بہت خطرناک بات ہے، اسے بھارت اور امریکہ کے پاکستانی دوست مذہبی فرقہ واریت کہتے ہیں۔ یہ سیاسی فرقہ واریت ہے بلکہ عالمی فرقہ واریت ہے۔ میں نے پچھلے کسی کالم میں اس طرف اشارہ کیا تھا۔ پاکستان میں امریکہ اور بھارت دہشت گردی کروا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کو کمزور کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی سازش ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے آنے اور بھارت کا اثرورسوخ بڑھانے کا سبب بلوچستان میں زیرزمین معدنی دولت پر قبضہ کرنا ہے اسی لئے اس سرزمین کے اوپر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہولی ہندوﺅں کا بڑا (مقدس) تہوار ہے۔ گوادر پورٹ کیلئے اس فیصلے کا دکھ برطانیہ کو بھی ہے۔ایک اور بات رضا ربانی نے بہت بامعنی اور معنی خیز کی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو انٹرنیشنلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ حملہ امریکہ کی عالمی دھاندلیوں اور بے انصافیوں پر حملہ ہے۔ اس کیلئے یو این او کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر اپنی فوجیں اس علاقے میں اتار دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے یو این او کے امریکی ملازم سیکرٹری جنرل بان کی مون کا بیان کوئٹہ دھماکے کیلئے افسوسناک ہے۔ اس نے کبھی کشمیری اور فلسطینی حریت پسندوں کیلئے بیان نہیں دیا۔ عراق میں امریکی حملے کی بنیاد بھی اقوام متحدہ نے فراہم کی تھی مگر پاکستان کیلئے ایسی جرا¿ت کرنے کی توفیق امریکہ کو نہ ہوگی۔ اب امریکہ افغانستان سے ذلیل و خوار ہو کر نکل رہا ہے اور اس کیلئے پاکستان امریکہ کو محفوظ راستہ فراہم کریگا مگر پھر بھی رضا ربانی کے اس جملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر زرداری کیلئے بھی غوروفکر کی دعوت ہے کہ وہ اس خفیہ اور دوستانہ عداوت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ صدر زرداری کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے گوادر پورٹ چین کے حوالے کیا ہے۔ صدر زرداری کو مقامی سیاست آتی ہے تو عالمی سیاست پر بھی انکی نظر ہوگی۔اب یہ چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت قدمی سے اپنے خطے میں بھرپور کردار ادا کرے۔ اس خطے میں امریکہ کو کھل کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ روس کو بھی اس خطے میں واضح کردار ادا کرنا چاہئے۔ سات سمندر پار سے آکر یہاں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا صرف پاکستان کیلئے چیلنج نہیں، چین، روس، افغانستان برصغیر کے سارے ملکوں حتیٰ کہ بھارت کیلئے بھی چیلنج ہے، اسے بے انصافی چھوڑنا ہوگی۔ ایک مشرقی بلاک مغربی اور امریکی بلاک کے مقابلے میں بننا چاہئے۔ کشمیر کا مسئلہ یو این کی قراردادوں کے مطابق حل کر کے! .................... ............سرور منیر راﺅ نے نوائے وقت میں اور سجاد میر نے اپنے اخبار میں گوادر پورٹ کے حوالے سے مضبوطی کے ساتھ لکھا ہے۔ دوسرے کالم نگار بھی بھارت اور امریکہ کی قدم بوسی بروزنِ قلم بوسی نہ کریں اور پاکستان کے اس فیصلے کیلئے کھل کر حمایت کریں۔ صدر زرداری کی بھی ہمت بندھائیں۔ بلوچستان کے سابق حکمران عطاءاللہ مینگل کا بیان پڑھ کر شرم آئی ہے کہ ”یہ بلوچوں کے تابوت میں آخری کیل کے مترادف ہے“ مینگل صاحب بلوچستان کو امریکہ کے حوالے کرنے کے حق میں ہیں۔ پچھلے دنوں جب اختر مینگل پاکستان آئے، انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کی طرح چھ نکات پیش کئے۔ نوازشریف اور عمران خان سمیت سب سیاستدان اختر مینگل کے آگے پیچھے پھرتے رہے۔ انہوں نے صدر زرداری سے ملاقات نہ کی۔ اب صدر زرداری نے گوادر پورٹ کا فیصلہ امریکہ کی مرضی کے برعکس چین کے حق میں کردیا ہے تو مینگل صاحبان کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے۔ اب بھی ہمارے سیاستدان پاکستانی مفاد کے مطابق نہیں سوچیں گے کہ انکو امریکہ اور بھارت کی ناراضگی کا ڈر ہے۔پاکستان کے سارے پراجیکٹ چین نے تیار کرکے دئیے ہیں۔ شاہراہ ریشم، چشمہ بیراج، واہ آرڈیننس فیکٹری کے علاوہ سب منصوبے اور اب گوادر پورٹ چین نے بنا کر دی ہے۔ گوادر پورٹ بنانے میں یورپ اور امریکہ نے دلچسپی نہیں لی تھی۔ انکی دلچسپیاں اپنے مفاد کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔ امریکہ نے پاکستانی حکمرانوں کو کرپٹ کرنے کیلئے ضرور ڈالر دئیے ہیں۔ پاکستان کیلئے سٹیل ملز روس نے بناکے دی ہے۔ ایک عظیم الشان منصوبہ یہ ہے جو ہماری سیاسی بدعنوانیوں کی بھینٹ چڑھ کر برباد ہونیوالا ہے۔ یہاں جنرل جاوید نے چیئرمین کے طور پر بہتری پیدا کی تھی۔ انہیں کرپٹ اور مفاد پرست لوگوں نے ہٹوا دیا۔ اب پھر انہیں یہ مشکل ترین ذمہ داری دی گئی ہے۔ وہ زیادہ پرامید نہیں مگر مایوس بھی نہیں۔ انہیں بابا عرفان کی روحانی حوصلہ افزائی بھی حاصل ہے۔گوادر پورٹ ہماری دفاعی اور معاشی ترقی کیلئے ایک روشن مینار کی طرح ہے۔ اس کیلئے چین بھی اپنی تجارتی فتوحات کا ریکارڈ قائم کرسکتا ہے۔ یہ معاملہ پاکستان سے بھی زیادہ چین کیلئے اہم ہے۔ آخر میں مجھے ایک قدیم روایت یاد آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حدیث کا درجہ بھی دیتے ہیں مگر اس بات کو متنازعہ اور مشکوک بنانے کی سازش کی گئی ہے ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“.... کم نظر لوگ اسکی معنویت اور اہمیت کو صرف دوری کی علامت کے ساتھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس میں یہ رمز بھی ہے کہ مغرب اور امریکہ کی بجائے اس طرح بھی غور کرنا ہوگا کہ اقوام عالم میں چین کا ایک مقام بن چکا ہے۔ ہمیں اب چین کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ نئی طاقت کے طور پر اب چین کی باری ہے اور اس سے دنیا والے نفرت بھی نہیں کرتے۔ دنیا بھر میں چین کا پاکستان سے بڑا دوست کوئی نہیں۔ چین کی ہر شعبے میں روزافزوں ترقی سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ ڈاکٹر سلام نے لکھا ہے کہ سائنس کے متبادل کے طور پر عربی زبان میں علم کا لفظ ہے۔ قرآن کریم میں علم حاصل کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کچھ اضافے کے ساتھ میر تقی میرچلتے ہو تو چین کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے....٭....٭....٭....