پاکستان کے حالات کا واحد سدھار وقت پر صاف و شفا ف انتخابات کا انعقاد ہے اور یہ بات پیپلز پارٹی سے ہضم نہیں ہو رہی۔ انہیںحقیقی جمہوریت نامنظور ہے۔ دہشت گردی کی ایک وجہ وزیر داخلہ رحمان ملک ہیں۔ جس روز پاکستان ان صاحب سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا،ملک کے حالات میں ایک واضح تبدیلی رونما ہو گی۔ حکمران ٹولے سے رہائی کا واحد راستہ انتخابات ہیں مگر حکومت اس راستے کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ کی بڑھتی ہو ئی مقبولیت سے خوفزدہ جماعتیں حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ان سب کا ایک مقصد میاں نواز شریف کو وزیراعظم بننے سے روکنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حق ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لئے تمام سیاسی حربے استعمال کریں مگر عداوت و تعصب میں اتنی دور مت نکل جائیں کہ ملک ہی ہاتھ سے نکل جائے۔ پاکستا ن میں مرنے والے کلمہ گو ہیں مگر مارنے والے منافقین اور غدار ہیں۔کرائے کے قاتل اور اندرونی و بیرونی طاقتوں کے ایجنڈوں کا مذہب شیطانی ہے، انہیں مسلمان کہنا اسلام کی توہین ہے۔ اس ملک میںکالعدم تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں، فرقہ واریت بھی پہلے سے موجود ہے مگر فرقہ واریت کی آڑ میں دہشت گردی کا ماحول پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا جو کہ زرداری دور میں خوفناک صورتحال اختیار کر گیا۔ اگر اس ملک میں صاف شفاف انتخابات ہوجائیں تو عوام اپنے غم و غصہ کا اظہار ووٹوں کے ذریعہ کر دیں گے۔ پرویز مشرف کا ٹولہ بھی ووٹوں کی نذر ہوا تھا اور موجودہ حکمران طبقہ کے ساتھ بھی وہی حشر متوقع ہے۔ یہی خوف انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کراچی اور بلوچستان کو ملک سے الگ کرنے کے منصوبے پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے۔ پنجاب کو دہشت گردی کا ٹریننگ کیمپ ثابت کرنے کے پس پشت شریف برادران سے مخالفت ہے۔گھر کو گھر کے چراغ آگ میں جھونک رہے ہیں، آستین کے سانپ دشمن ممالک کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ملک کو اندر سے خطرات لاحق ہیں۔ ہنود و یہودو نصاریٰ کی سازشیں پاکستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں مگر حکمرانوں کی بے حسی اور بے ضمیری نے سازشوں کو تقویت بخشی ہے۔ ایک جیتا جاگتا انسان غداری کی بُو کو دور سے محسوس کر سکتا ہے مگر اندھے بہرے کارکن اور عقیدت مند اپنے قائدین کی منافقت کو سمجھنے سے محروم ہیں یا پھر اپنے انجام کے خوف سے قائدین کی پیشگوئیوں اور بیانات کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں رکھتے۔ کلمہ حق کہنا آسان ہوتا تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ الا ما شا ءاللہ صحافی بھی بِک چکے ہیں۔ کالموں اور تجزیوں سے تعصب کی بدبو آتی ہے۔ رحمان ملک نے کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی کے واقعات میں چار کالعدم تنظیموں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے بقول ان کی پیشگوئیاں پہلے بھی سچ ثابت ہو ئی ہیں۔ ہدایات کو پیش گوئی قرار دینے سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ فرقہ واریت میں جو شدت ماضی میں تھی،آج نہیں۔ میڈیا اور انٹر نیٹ نے عوام میں شعور بیدا ر کر دیا ہے۔ بیرونی سازشیں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر مسلمانوں کو لڑانے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ اب جو بھی ہو رہا ہے، اس کے پس پشت مذہبی تعصب نہیں بلکہ سیاست اور سازش ہے۔ کسی کی مرغی گاڑی تلے آکر ماری جائے تو اس کا الزام بھی کا لعدم تنظیموں پر ڈال دیا جاتا ہے اور کسی کا گھوڑا گھاس کھانا چھوڑ دے تو اس کا ذمہ دار بھی فرقہ واریت قرار د ی جاتی ہے۔ رحمان ملک کے بیانات کو مغربی میڈیا میں اہم مقام حاصل ہے۔ امریکہ کے نامور اخبارات رحمان ملک کی پیشگوئیوں کو حرف آخر تصور کرتے ہیں۔ اس شخص کی پیشگوئیاں امریکی پالیسی کی ترجمان ہیں۔ نیویارک ٹائمزکہتا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن بم دھماکوں کا تعلق انتہاءپسند فرقہ وارانہ تنظیم لشکر طیبہ سے ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کوئٹہ میں دونوں حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ اسی تنظیم نے کیاہے لیکن اس کے باوجود وہ بلوچستان میں کھلم کھلا سرگرم عمل ہے اور اس کے لیڈر ملک میں بلا خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں اور فرقہ ورانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ اللہ کے گھر میں دو سفید چادروں میں لپٹے مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ہی خدا کی عبادت میں مشغول ہیں۔محمود و ایاز کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ سعودی عرب میں موروثی نظام حکومت رائج ہے جس کی جتنی مخالفت کی جائے کم ہے مگر جب وہاں کے عوام سے بات کی جائے تو وہ پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیںحالانکہ پاکستان میں بھی آمریت اور موروثی نظام قائم ہے۔ سعودی فرمانروائی کو ملوکیت کہا جائے تو نظام بلاول کو کیا نام دیا جائے؟ بدصورت جمہوریت سے ایسی ملوکیت بہتر جس میں عوام کی جان و مال محفوظ ہے۔
جمہوریت و ملوکیت....!
Feb 22, 2013