ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے

Feb 22, 2014

آغا امیر حسین

دبئی کے قوانین ایسے بنائے گئے ہیں جو آنے والوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا، جائز ہے یا ناجائز؟ عرشی اور فرشی طبقات کی یہ تقسیم پاکستان میں اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اسکی مثال دنیا میں کم ہی ملے گی۔
طالبان اگر اپنی اس لڑائی کی بنیاد فرشی طبقے کے مسائل کو اُجاگر کرنے اور عرشی طبقے کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے استعمال کرتے تو آج طالبان کو عوام کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اسکی جگہ پاکستان کے غریب عوام کی حمایت اور ہمدردی انہیں حاصل ہو جاتی۔ لیکن انکی پشت پر جو اسلام دشمن قوتیں ہیں۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان سب مل کر طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ اسلحے کی سپلائی اور ڈالروں کی بارش جاری و ساری ہے۔ یہ طاقتیں اور قوتیں پاکستان میں صحیح معنوں میں عوامی حکومت اور جمہوریت قائم کرنے اور پاکستانی معاشرے میں ثقافتی انقلاب برپا کرنے کی کیسے اجازت دے سکتی ہیں۔ ان طاقتوں کا تو اپنا نظام اس بات کی اجات نہیں دیتا پھر ان سب کا مشترکہ مقصد تو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ ہے اس کیلئے سالہا سال سے تانے بانے بنے جاتے رہے ہیں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا ڈرامہ بھی اس سلسلے کی ہی ایک کڑی تھا۔ اطلاعات کیمطابق اس وقت پاکستان کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ غیر ملکی ایجنٹ تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ایٹمی حوالے سے جن علاقوں میں انکی اطلاع کیمطابق ایٹمی سازو سامان کو محفوظ کیا گیا ہے اسے لوٹنے اور نکال لے جانے کی پریکٹس افغانستان میں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بھارت کے سولہ سترہ سفارتی دفاتر افغان پاکستان سرحد پر تخریب کاروں کو منظم کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلحہ اور پیسہ دے کر دہشت گردوں کے گروہ تیار کرکے انہیں پاکستان میں بحران پیدا کرنے اور غیر یقینی صورتحال پیداکرکے بڑی فوجی کارروائی کی تیاری میں ہیں۔ بھارت کے حکمران اکھنڈ بھارت کے چکر میں اور بڑا ملک ہونے کے نشہ میں پاکستان کے معاملے میں نہ تو عقل کی بات کرتے ہیں اور نہ عقل کی بات سنتے ہیں۔
 کشمیر کا مسئلہ ہو، سرکریک کا مسئلہ ہو، سیاچن کا مسئلہ ہو یا پانی کا سنگین ترین مسئلہ ہو، بھارت اپنے وعدے اور بین الاقوامی ضابطے وغیرہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تمام اسلام دشمن طاقتیں بھارت کو سمجھانے اور اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے اسکی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ ہاں میں ہاں ملاتی ہیں اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو 65 ء اور 71ء کی طرح بھارت جارحیت سے گریز نہ کرتا۔
 آج کل بھارت میں انتخابات ہونیوالے ہیں ایک انتہا پسند ہندو نریندر مودی جو گجرات کا چیف منسٹر بھی ہے وزارت عظمیٰ کا مضبوط امیدوار ہے۔ غور کیجئے جس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا انکے کاروبار اور صنعتوں کو تباہ کیا حتیٰ کہ مسلمان ایم این اے اور اسکے خاندان کو بھی ختم کیا گیا وغیرہ، ظلم کی طویل داستان ہے۔ حقائق ساری دنیا جانتی ہے، دستاویزات کی صورت میں ریکارڈ موجود ہے۔
پاکستان میں اگر حالات کو سنوارنا ہے، سدھارنا ہے، حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنی ہے تو آئین کے تحت ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ برپا کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے پورے ملک میں تھانوں کی سطح پر امن کمیٹیاں بنا کر اور ہر تھانے کے ہر حلقے میں دیانتدار، محب وطن شہریوں پر مشتمل کمیٹیاں بنا کر تھانے داروں کو ان کے ماتحت بنا کر آپریشن کلین اپ کیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ محلہ وار کمیٹیوں میں نوجوانوں کی شرکت سے ایک ایک گھر کی جانچ پڑتال کرنا آسان ہو جائے گا، خلاف ضابطہ اور قانون لوگوں تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ اس نظام کے تحت دشمن کو اندر سے وار کرنے کی جو سہولت اس وقت حاصل ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ نشے اور اسلحے کے پھیلائو کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنک جیسے سنگین جرائم پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں یہ خبر اخبارات میں چھپی کہ پاکستانی طالبان کی اس وقت آمدنی بذریعہ بھتہ خوری اور لوٹ مار ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ بھی ختم ہوسکتی ہے، بلالائسنس اسلحہ اور چوری اور ڈاکے کے واقعات کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل لڑائیاں وغیرہ بھی اس منصوبے کے ذریعے ختم کی جاسکتی ہیں اگر فوری طور پر ان خطوط پر عمل نہ کیا گیا تو بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ پورا سسٹم موجود ہے اس پر خلوص نیت کے ساتھ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر خالصتاً ملکی مفاد میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا پاکستان کے اٹھارہ بیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کی کمی ہے؟ اب تک جتنی سول اور فوجی حکومتیں بنی ہیں اللہ ماشاء اللہ سب نے مل کرعوام کا استحصال کیا ہے۔ اللہ کرے اس بار جو ہنگامی اقدامات کئے جائیں‘وہ صرف اور صرف پاکستان کا مفاد دیکھے اور بلاتخصیص سماج سے انتشار، لوٹ کھسوٹ، کرپشن، بے شرمی، بے حیائی کا قلع قمع کر دے اس کے علاوہ ہماری نظر میں کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر مزید تباہی و بربادی دیکھنی ہے، بھگتنی ہے تو شوق سے چند سال اور دیکھ لیں لیکن اس کے بعد اس قابل بھی نہیں رہیں گے کہ کوئی لائحہ عمل بنا سکیں اور حالات پر قابو پا سکیں۔ لبنان کی طرح کی خانہ جنگی صاف نظر آ رہی ہے۔ (ختم شد)

مزیدخبریں