ہفتہ ‘21 ؍ ربیع الثانی 1435ھ‘ 22؍ فروری 2014ء

طالبان سے مذاکرات کی ناکامی پر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے … ع
’’بنے گی اس طرح تصویرِ جاناں ہم نہ کہتے تھے‘‘
تصویرِ جاناں کو حکومت نے صدقِ دل سے دلکش بنانے کی کوشش کی تھی لیکن طالبان نے بُرقعہ والی سرکار کو اپنی ٹیم میں شامل کر کے رنگ میں بھنگ ڈالی ہے۔ مولانا فضل الرحمن مذاکرات کا سہرا اپنے سر سجانے کے متمنی تھے اور مولانا سمیع الحق خود دلہا بننا چاہتے تھے۔ جس طرح دو ملائوں کے درمیان مرغی حرام ہوتی ہے یوں لگتا ہے ایسے دو مولانا صاحبان کے مذاکرات بھی کھینچا تانی کی نذر ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اگر تصویرِ جاناں کے ایسا بننے کا علم تھا تو انہوں نے مفتی نقابت اللہ کو کمیٹی میں شامل رکھ کر اپنی منشا کے رنگ بھرنے کی اجازت کیوں نہ دی، اگر مریض ایک ڈاکٹر سے ٹھیک نہ ہو تو اسے قصاب کے سپرد نہیں کرنا چاہئے‘ محض کٹ حجتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر مرض اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس کا علاج سرجری کے سوا کوئی ادا نہ ہو تو پھر مریض کی جان بچانے کیلئے سرجری لازمی ہوجاتی ہے۔ حکومت نے تو کمیٹی تشکیل دے کر اس مرض کو ہومیوپیتھی علاج سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی اور اسی بنا پر مذاکرات کا کوئی ٹائم نہیں دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں عرض ہے …؎
بین کرتی ہوئی آنکھیں یہ پریشان زُلفیں
اور کیا چاہتے ہو ان سے محبت کر کے
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
کالا باغ میں 23 سالہ شادی شدہ خاتون کی لاش قبر سے نکال کر زیادتی کی گئی!
ابراہیم ذوق نے کہا تھا … ؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بنتِ حوا کے ساتھ پاکستان میں آجکل یہی ہو رہا ہے۔ کالا باغ کی 23 سالہ پروین اختر خاوند اور گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر پھندے کو  گلے میں ڈال کر جھول گئی لیکن اس بیچاری کو کیا علم تھا کہ پاک سرزمین پر پھرنے والے ناپاک درندے اسے قبر میں بھی آرام سے نہیں رہنے دیں گے۔ اتنا بڑا سانحہ ہُوا، ایس ایچ او سے لیکر آئی جی پنجاب تک کسی نے ابھی تک ایکشن نہیں لیا۔ اتنے بڑے ظلم پر زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ وزیر اعلیٰ سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں جبکہ رعایا ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ جنرل ہسپتال میں بھی خاتون کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ اس سے قبل ڈجکوٹ اور ڈبکلاں میں بھی خواتین کی عصمت دری کی گئی لیکن قانون حرکت میں نہیں آیا۔ پولیس کی بے حسی سے یوں لگتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے اور پولیس فارغ بیٹھ کر عوامی ٹیکس سے اکٹھی کی گئی رقم سے تنخواہ لے رہی ہے۔ پولیس اگر دو چار درندوں کو پکڑ کر زیادتی والی جگہ پر عبرت کا نشان بنا دیتی تو بھی یہ ظلم رُک سکتا تھا۔ ڈبکلاں اور ڈجکوٹ کے ملزمان کو پھانسی پر لٹکایا جاتا تو کالا باغ میں یہ قیامت برپا نہ ہوتی۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور خواتین کی حفاظت کے خصوصی اقدامات کرے، اگر خواتین کی عزت محفوظ ہو گی تو ملک میں امن قائم ہو گا اور معاشرے میں چھائے خوف کے بادل چھٹ جائیں گے۔
ایک دن میں دو قائم مقام صدر !
قوم پر ایک ہی قائم مقام صدر بھاری ہوتا ہے لیکن یہاں مزے لینے کیلئے دن بھی بانٹ لیا گیا۔ کہتے ہیں اندھا بانٹے ریوڑیاں مُڑ مُڑ اپنوں والی بات ہے۔ قوم کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مزے اُڑائے جا رہے ہیں۔ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک دن میں 2 قائم مقام صدور نے ایوان صدر میں آدھا آدھا دن گزارا۔ سردار ایاز صادق قائم مقام صدر بننے کے بعد لاہور بھاگے آئے تاکہ لاہوریوں کو بتا سکیں کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ چیئرمین سینٹ نے جب دیکھا کہ میں ایران گھوم آیا ہوں جبکہ صدر کی کرسی تو خالی ہے تو انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو اور بھاگتے اسلام آباد ایوان صدر پہنچ گئے۔ یوں دونوں قائم مقام صدور صاحبان نے کمال کر دیا ہے۔ سورج نرائن نے کہا تھا … ع
ہم جو بدلے ہیں تو پھر وہ بھی بدل سکتے ہیں
صرف عوام سے نہ کہا جائے بلکہ کچھ اپنی عادات بھی ٹھیک کی جائیں۔ دورے پر دورہ اس قدر نہ کیا جائے کہ خزانہ بھی جواب دیدے۔ ہمارے صدر اور وزیراعظم پورا الائو لشکر لیکر دورے کرتے ہیں اور عوام روٹی کو ترس رہے ہیں۔ حکمرانوں نے جس اقتدار کیلئے باریاں لگائی ہیں اسی باری باری بیرونی دورے کرنے چاہئیں، اس سے ہر کوئی قائم مقام بن کر ایک ٹکٹ میں دو دو مزے اُڑا سکے گا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں نعرۂ تکبیر، آزادی اور بھارت ماتا کی جے کے نعروں کا مقابلہ !
گزشتہ دنوں کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب کشمیر کے مسلم اکثریت علاقوں سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے بھارت سرکار کی طرف سے جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کو زیادہ فنڈز دینے اور وہاں زیادہ ترقیاتی کاموں پر مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ جموں کے ہندو ارکان اسمبلی کو نہیں بھایا اور انہوں نے جواب میں ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ یہ سُننا ہی تھا کہ جواب میں خونِ مسلم نے جوش مارا اور بلاتفریق نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی کے تمام مسلم ارکان کی غیرت جاگ پڑی اور انہوں نے جوابی طور پر ’’نعرۂ تکبیر ‘ اللہ اکبر‘‘ کے نعرہ لگانا شروع کر دئیے، یہاں تک تو مقابلہ کوئی خطرناک صورتحال کی عکاسی نہیں کر سکا کیونکہ کشمیر میں مسلمان، ہندو اور بودھ صدیوں سے آباد ہیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے جب ’’ہم کیا چاہتے ہیں آزادی‘‘ کے نعرے لگنے شروع ہوئے تو اصل صورتحال سامنے آئی اور بھارتی حکومت کو اس سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کشمیری جہاں بھی جب بھی موقع ملے بھارت سے آزادی کیلئے اپنے سینوں میں چھپے جذبات کو جو انکے دل کی آواز ہے لبوں پر لانے سے دریغ نہیں کرتے اسکا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں جس طرح ہُوا وہ دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ ممبران اسمبلی وہ ہیں جو بھارت کے زیر اہتمام الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، کٹھ پُتلی حکومت میں حصہ بنتے ہیں مگر جب بھی انہیں جذبات کے اظہار کا موقع ملتا ہے وہ آزادی کے حق میں نعرے لگانے، بھارت سے نفرت اور جبری ناطے توڑنے کی بات کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن