پاکستان میں پانی کی قلت کے حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بنک کی چشم کشا رپورٹ اور بھارتی آبی دہشتگردی…کیا ہم اپنی موت کا خود ہی اہتمام کر رہے ہیں

ایشائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موجودہ آبی ذخائر سے پاکستان کی صرف 30 دن کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں پانی کی سب سے زیادہ قلت کا سامنا پاکستان کو ہے‘ جہاں پانی کی قلت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسم میں ہونیوالی مختلف تبدیلیاں آبی دخائر پر منفی اور مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں جن کے باعث بعض اوقات ملک میں موجود آبی ذخائر بھی بھر نہیں پاتے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف زرعی شعبہ کو ہی پانی کی قلت درپیش نہیں بلکہ انسانی ضروریات کیلئے پانی کی دستیابی بھی ایک ہزار کیوبک لیٹر سالانہ سے کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ملتے جلتے موسم والے ممالک میں پانی کے ایک ہزار دن کے ذخائر کی سفارش کی جاتی ہے مگر پاکستان میں موجود آبی ذخائر سے ملک کی صرف30 دن کی ضروریات ہی پوری ہو سکتی ہیں۔
یقینًا موسموں کے تغیر و تبدل سے بھی خطے کے آبی ذخائر میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں پہاڑی سلسلے پر موجود گلیشیئر پگھلنے سے پانی کی سطح بلند ہوتی ہے جبکہ خشک سالی پانی کی قلت کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ سلیقہ مند اور منظم قوموں کی یہی دانشمندی ہوتی ہے کہ وہ موسموں کے تغیروتبدل سے ماحول میں اور زمین کی سطح پر رونما ہونیوالی منفی تبدیلیوں سے انسانی آبادی کے بچائو کی پہلے سے پیش بندی کرلیتی ہیں جبکہ اسکے مثبت اثرات سے بھرپور استفادہ کی بھی پہلے سے جامع منصوبہ بندی کرلی جاتی ہے۔ قدرت نے ہماری دھرتی کو تیل‘ گیس‘ قیمتی دھاتوں اور پانی کی شکل میں انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالامال کر رکھا ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان قدرتی وسائل سے صحیح معنوں میں استفادہ کیلئے بھی ہمارے منصوبہ سازوں کی جانب سے کبھی کوئی ٹھوس حکمت عملی طے نہیں کی جاتی جبکہ سیلاب‘ زلزلوں اور خشک سالی کی شکل میں آنیوالی قدرتی آفات سے بچائو کی کوئی جامع حکمت عملی بھی ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکام کے ذہن رسا میں گھر نہیں کر پاتی۔ موسمیات کے ماہرین کی جانب سے تو گزشتہ دو سال سے تواتر کے ساتھ موسمی تغیروتبدل سے کرۂ ارض پر مرتب ہونیوالے تمام اچھے برے اثرات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جس کی روشنی میں ہر باشعور قوم نے آنیوالے حالات سے عہدہ برأ ہونے کی پیش بندی کرلی ہوئی ہے۔ ہمیں تو بطور خاص اس لئے بھی موسمی تغیروتبدل سے پیدا ہونیوالی ممکنہ آبی قلت سے عہدہ برأ ہونے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت تھی کہ ہم تو اپنے روایتی دشمن بھارت کی جانب سے پہلے ہی آبی دہشت گردی کا شکار ہو کر پانی کی سخت قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم نے تو ایسی ممکنہ بھارتی سازشوں کا شروع دن سے ہی ادراک کرلیا تھا چنانچہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک کے آبی ذخائر بڑھانے کی جانب خصوصی توجہ دی اور دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم کے مقام پر ایک بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر ہوم ورک مکمل کرایا۔ اگر وہ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو اپنے تجویز کردہ اس پاور پراجیکٹ (ڈیم) کی ترجیحی بنیادوں پر تعمیر مکمل کراتے اور اس طرح ملک کو ہائیڈل بجلی سے بھی مالامال کرتے اور خشک سالی میں پانی کی قلت بھی نہ ہونے دیتے۔ کالاباغ کے اسی مقام پر بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع ہوا جو قائداعظم کی سوچ سے عین مطابقت رکھتا تھا جبکہ اس سے قبل ایوب خان کے دور حکومت میں 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین پیدا ہونیوالا آبی تنازعہ ختم کرانے کیلئے عالمی بنک نے دونوں ممالک میں سندھ طاس معاہدہ طے کرایا جس میں پاکستان کے تین دریا پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کر دیئے گئے جبکہ باقیماندہ تین دریائوں جہلم‘ چناب اور سندھ کو بھی بھارت کی تحویل میں دے کر پاکستان کو صرف اتنا حق دیا گیا کہ وہ ان دریائوں کے پانی سے پہلے استفادہ کرتے ہوئے ان پر ڈیمز تعمیر کر سکتا ہے جس کے بعد بھارت کو ان دریائوں پر ڈیمز تعمیر کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ ہمارے کوتاہ اندیش حکمرانوں اور آبی ماہرین نے سندھ طاس معاہدہ میں دی گئی اس معمولی سی رعایت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد ملک میں سرے سے کوئی تیسرا ڈیم ہی تعمیر نہ ہو سکا جبکہ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو بھارتی مفادات کی رکھوالی کرنیوالے ہمارے بعض خود غرض سیاست دانوں نے متنازعہ بنا دیا چنانچہ یہ ڈیم نہ صرف آج تک تعمیر نہیں ہو سکا بلکہ پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر کالاباغ ڈیم کی فائل مستقل طور پر بند کر دی گئی جس پر اے این پی کے قائدین نے یہ کہہ کر اپنی کامرانیوں کا اظہار کیا کہ ہم نے کالاباغ ڈیم کی فائل سندھ برد کرادی ہے۔ درحقیقت کالاباغ ڈیم کی فائل نہیں‘ ان سیاست دانوں نے قومی مفادات سندھ برد کرائے تھے اور بدقسمتی سے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے موجودہ دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ ختم کرنے کی توثیق کردی گئی ہے جس کا اعلان دو ہفتے قبل وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے یہ کہہ کر کیا کہ قومی اتفاق رائے کے بغیر کالاباغ ڈیم کبھی تعمیر نہیں ہو سکتا‘ گویا نہ 9من تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی۔ یہی تو ہمارے دیرینہ روایتی دشمن بھارت کا اصل ایجنڈہ ہے جو ملک کی سرحدوں پر بھی ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا اور ان سازشوں کے تحت ہی وہ ہم پر تین جنگیں مسلط کرکے ملک کو دولخت بھی کر چکا ہے جبکہ باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف وہ ہر محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ کشمیر پر اس نے پاکستان کی سالمیت کمزور بنانے کی نیت سے ہی تسلط جمایا کیونکہ کشمیر سے آنیوالے دریائوں کا پانی روک کر ہی وہ پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے اور یہاں کے انسانوں کو بھوکا پیاسا مارنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنا سکتا تھا۔ وہ آج اپنی اس سازش پر ہی کاربند ہے جبکہ ہمارے عاقبت نااندیش حکام اور آبی ماہرین نے اپنی روایتی غفلت کے باعث پاکستان کے پانیوں پر بھارتی تسلط کیخلاف نہ عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف میں کوئی ٹھوس کیس پیش کیا اور نہ ہی سندھ طاس معاہدہ میں ڈیم کی تعمیر سے متعلق دیئے گئے حق سے کسی قسم کا استفادہ کیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید نے اسی تناظر میں گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ایوب خان نے بھارت کے ساتھ آبی معاہدوں میں جو بلنڈر کیا تھا‘ اس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ اگر سندھ طاس معاہدہ کی روشنی میں ہم پاکستان آنیوالے تین دریائوں پر پہلے ڈیم کی تعمیر کا حق ہی استعمال کر لیتے تو اس معاہدے میں ہونیوالے بلنڈر کا کچھ ازالہ ہو سکتا تھا مگر ہمارے متعلقہ حکام کی عاقبت نااندیشی نے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کا معمولی فائدہ بھی نہیں پہنچنے دیا۔ اسکے برعکس بھارت تمام چھ دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈیمز کے انبار لگا چکا ہے اور کشن گنگا ڈیم سمیت متعدد مزید بڑے ڈیمز کی تعمیر کا بھی آغاز کر چکا ہے جن کی تعمیر مکمل ہونے سے پاکستان اپنے پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہو جائیگا۔ اگر ہم ان بھارتی سازشوں کا بھی توڑ نہیں کر رہے اور موسمی تغیروتبدل سے پیدا ہونیوالی پانی کی قلت کا بھی ہمیں سامنا ہے تو ہم نادانستگی میں اپنی موت کا خود ہی اہتمام کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے یقیناً اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جسے دشمن کے شکنجے سے نکالنے کی ہمارے حکمرانوں نے اب تک نہ صرف کوئی حکمت عملی طے نہیں کی بلکہ سرے سے کشمیر ہی پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کرنے کی پالیسیاں طے کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام شروع ہونیوالی چھٹی سالانہ سہ روزہ نظریہ پاکستان کانفرنس میں بھارت کے پیدا کردہ انہی حالات کا ادراک کرتے ہوئے شہ رگِ پاکستان کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور حکومت سے تقاضا کیا گیا ہے کہ بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے باقاعدہ الگ فوج بنائی جائے۔ اس کانفرنس میں وطن عزیز کی سالمیت کیخلاف جن بھارتی گھنائونی سازشوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ ان کا توڑ کرنا تو ہمارے حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے مگر بدقسمتی سے مسلم لیگی حکومت کے قائدین بھی بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت اور اسے پسندیدہ ترین قرار دینے کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔ اگر پانی کی قلت کے حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بنک کی چشم کشا رپورٹ کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور بھارتی آبی دہشتگردی کا توڑ نہ کیا تو پھر اس روئے زمین پر کوئی اور ہمیں بچانے نہیں آئیگا اور ہم بھوکے پیاسے موت کی وادی میں دھکیل دیئے جائینگے۔

ای پیپر دی نیشن