دوقومی نظریہ سے انحراف پاکستان کی نفی کے مترادف ہے: جسٹس (ر) محبوب احمد

 لاہور (خصوصی نامہ نگار) دوقومی نظریہ کو اجاگر رکھنا پاکستان کی بقاء کیلئے لازم و ملزوم ہے اور اس سے انحراف پاکستان کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ فرقہ بندی اسلام کی نفی ہے اور ہمیں اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ موجودہ دور میں علماء و مشائخ کا اہم کام تفرقہ بازی کو ختم کرناہے۔ پاکستان کی بقاء کیلئے ہم تن من دھن قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ برصغیر میں دو قومی نظریہ کے احیاء کے لیے علماء و مشائخ کا کردار ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریۂ پاکستان کی حقیقی روح کو سمجھا جائے اور اس کی پیروی کی جائے۔ اس خطے میں اسلام دہشت گردی کے ذریعے نہیں بلکہ اولیاء اﷲ نے اپنے کردار کے ذریعے پھیلایا۔ آپؐ نے عربی و عجمی کے فرق کو ختم کر کے امت مسلمہ کو اتحاد کا درس دیا۔ ہم صرف باتوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کی کوشش کریں۔آج ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ تمام پاکستانی جس طرح اپنے گھر اور بچوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح اس ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں چھٹی سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کے دوسرے روز ساتویں نشست بعنوان ’’برصغیر میں دوقومی نظریہ کا احیاء اور تحریک پاکستان میں صوفیائے کرام اور علماء و مشائخ کا کردار‘‘ کے دوران کیا۔ نشست کی صدارت وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد نے کی۔ تلاوت کی سعادت حافظ امجد علی نے حاصل کی۔ اختر حسین قریشی نے ہدیہ نعت  پیش کیا۔ اس موقع پیر میاں ولید احمد جواد شرقپوری، صاحبزادہ سلطان احمد علی، پیر سید احمد مصطفین حیدر شاہ، پیر اعجاز احمد ہاشمی، قاری زوار بہادر، ڈاکٹر جاوید اختر، جسٹس (ر) منیر احمد مغل، پیر سید مظفر علی شاہ، مولانا محمد شفیع جوش، علماء و مشائخ اور دیگر موجود تھے۔ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت میاں محبوب احمد نے کہا  افسوس کی بات ہے کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کو محض چار لفظ سمجھ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریہ شروع سے موجود ہے‘ حزب اللہ اور حزب مخالف کا وجود ہمیشہ سے رہا ہے۔ جب پاکستان بننے کی تحریک شروع ہوئی تو قائداعظمؒ کانگریس کے ممبر تھے۔ قائداعظمؒ ایک ذی شعور انسان اور سچے مسلمان تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس راستے پر ڈال دیا جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ بعض عناصر 11اگست1947ء کی قائداعظمؒ کی تقریر کو بنیاد بنا کر غلط پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن قائداعظمؒ نے قرآن وسنت کی روشنی میں ہی بات کی تھی۔  دوقومی نظریہ کو اجاگر رکھنا پاکستان کی بقاء کیلئے لازم و ملزوم ہے اور اس سے انحراف پاکستان کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کا وجود نظریۂ پاکستان پر ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی دوقومی نظریے کو اجاگر کرنے، اسے لوگوں کے قلوب میں اتارنے، نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت اور صوبوں کو آپس میں ملانے کیلئے گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایسا کام ایک سچا اور لگن رکھنے والا مسلمان ہی کر سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ایسے شخص کی درازیٔ عمر کیلئے ہر شخص کو دعا کرنی چاہئے تاکہ وہ قوم کی مزید خدمت کر سکیں۔ صاحبزادہ میاں ولید احمد جواد شرقپوری نے کہا برصغیر میں دو قومی نظریے کے احیاء کے لیے علماء و مشائخ کا کردار ناقابل تردید حقیقت ہے۔ نظریۂ پاکستان دراصل نظریۂ اسلام ہے اور یہ نظریہ ہادیٔ برحق حضرت محمد ﷺ سے چلتا ہوا حضرت مجدد الف ثانی سرہندیؒ کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ انہوں نے یہ چیز مسلمانوں کے اذہان میں راسخ کی کہ ہندو مسلم ہر لحاظ سے الگ الگ قوم ہیں۔ اسی نظریے سے فیض حاصل کرتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے قائداعظمؒ کی قیادت میں یہ ملک حاصل کیا۔ پیر اعجاز احمد ہاشمی نے کہا کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد اسلام میں امت واحدہ کا تصور ہے۔ اس کی ابتداء نبی کریمؐ نے کی اور غلامان مصطفیﷺ ایک امت ہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع یہ بات واضح کرتا ہے کہ آپؐ نے عربی و عجمی کے فرق کو ختم کر کے امت مسلمہ کو اتحاد کا درس دیا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج میڈیا پر دو قومی نظریہ کی مخالفت کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے کے لیے بہت قربانیاں دی گئیں لیکن آج بڑی آسانی کے ساتھ اس ملک کے اساسی نظریہ کیخلاف باتیں کی جارہی ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ پاکستان ہے توہم ہیں۔ خانوادہ سلطان باہوؒ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل نوجوان ہیں اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ان کی نظریاتی آبیاری کر رہا ہے۔  ٹرسٹ کی مطبوعات انتہائی مستند تاریخی حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر پاکستانی کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ برصغیر میں کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہے کہ اولیائے کرام نے اس کفرستان میں توحید و رسالت کی تبلیغ کی۔ پاکستان کا تو نقشہ بھی اسم محمدؐ جیسا ہے۔ اسم محمدؐ کی اولین میم کشمیر کے نقشے سے ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر پاکستان کا محض جغرافیائی جزو ہی نہیں بلکہ روحانی جزو بھی ہے۔ خدانخواستہ اگر کشمیر کو الگ کر دیا جائے تو وہ میم حذف ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسم محمد کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ پیر سید احمد مصطفین حیدر شاہ نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے نظریۂ پاکستان کا تحفظ اور ترویج و اشاعت کی جارہی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہاں آکر محض گفتگو کرنے یا باتیں سننے کی بجائے ان باتوں پر عمل کرنے کا عہد کریں۔ قاری زوار بہادر نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ دلی مبارکباد کا مستحق ہے کہ وہ ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں دو قومی نظریہ کا عَلم اٹھائے ہوئے ہے۔ آج بہت سے ٹی وی اینکر پرسنز کو تحریک پاکستان کا کوئی پتہ نہیں اور وہ حقائق کو صحیح طرح بیان نہیں کررہے ہیں۔آج قوم کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کو چلانے اور پاکستان بنانے والے کون لوگ تھے اور ان کا ویژن کیا تھا۔ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے اور اس کا ایٹمی طاقت بننا بھی ایک معجزہ ہے۔ دشمن ہمارے نظریہ سے گھبراتا ہے کہ ان کے دلوں سے نبی کریمﷺ کی محبت نکال دی جائے۔ پاکستان اور دو قومی نظریہ صبح قیامت تک رہے گا اور حضورؐ کے غلام اس کی حفاظت کرتے رہیںگے۔ ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا حقیقت یہی ہے کہ اگر تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ شامل نہ ہوتے تو شاید پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ علماء و مشائخ نے قائداعظمؒ کا ساتھ دیا تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ شاہد رشید نے کہا کہ تحریک پاکستان ایک روحانی تحریک تھی اور جب اس تحریک میں علماء و مشائخ شامل ہوئے تو یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور یہ تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ آج ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے علماء و مشائخ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نشست کے آخر میں جسٹس(ر) منیر احمد مغل نے دعا کروائی۔

ای پیپر دی نیشن