پشاور (بی بی سی) خیبر پی کے کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا راستہ روکنے کیلئے بننے والے قومی لشکر اور امن کمیٹیاں اپنے علاقوں کی حفاظت میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق خیبر پی کے کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں بننے والے قومی لشکر اور امن کمیٹیوں کے 400 سے زائد ممبران عسکریت پسندوں کا نشانہ بنے ہیں۔ عسکریت پسندوں کے خلاف بننے والے قومی لشکر اور امن کمیٹیوں کی ثابت قدمی کی بڑی وجہ فوج اور علاقے کے لوگوں کی حمایت کا حاصل ہونا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کیخلاف ہونیوالے فوجی آپریشن کے بعد بننے والے قومی لشکر اور امن کمیٹیوں کے متعدد ارکان نامعلوم افراد کے فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ اگست 2009ء میں سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف بننے والے نیک پی خیل امن جرگے کے سربراہ ادریس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے جرگے پر 40 حملے کیے گئے جن میں جرگے کے 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ طالبان کے سابق گڑھ تحصیل کبل کی اصلاحی کمیٹی کے سربراہ سید انعام الرحمان نے بتایا کہ 50 سے زائد ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے ممبران بھی عسکریت پسندوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بونیر میں بننے والے قومی لشکر کے سربراہ افسر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان نے ان کے بھائی فاتح خان سمیت لشکر کے 15 افراد کو ہلاک کیا اور ان پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ افسر خان نے لشکروں کے ساتھ حکومتی رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان لشکروں کے ساتھ اس طرح کا تعاون نہیں کر رہی جن کی انکو ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے نہ تو ان لشکروں کوکوئی تربیت دی گئی اور نہ ہی انھیں اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔