لاہور (نامہ نگار) جوہر ٹائون ای بلاک میں قتل ہونے والے ایک ہی خاندان کے 8افراد کا قتل پولیس کی تفتیشی ٹیموں کے لئے معمہ بن گیا ۔ تاحال پولیس کی تفتیشی ٹیموں کو نہ تو اب تک ڈی این اے رپورٹ، فرانزک لیب کی رپورٹ ملی ہے جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ جو پولیس کو ملی تھی وہ پولیس کے لئے ناکافی تھی جس پر پولیس نے وہ رپورٹ بھی فرانزک ایکسپرٹس کو بھجوا دی ہے جس سے تعین کیا جا سکے کہ ان آٹھ افراد کا قاتل کون ہے۔ جوہر ٹائون کے علاقہ ای ون میں پانچویں روز بھی ہو کا عالم طاری رہا، اہل محلہ خوف کے مارے مقتل گاہ کے قریب جانے سے بھی گھبرانے لگے۔ پولیس افسران نے اس بات کاحتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ سانحہ جوہر ٹائون نہ تو ڈکیتی قتل اور نہ ہی کوئی دہشت گردی کی واردات ہے قاتل کوئی گھر کا اندرونی فرد ہی ہے جس کو گھر کے تمام حالات سے آگاہی تھی جس نے یہ خونی کھیل کھیلا۔ اس لرزہ خیز واردات میں کیمیکل انجینئر نذیر ہی ملوث تھا اور اس کے معدے سے زرد رنگ کا مواد برآمد ہوا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نذیر نے خواب آور گولیاں کھائیں اور مبینہ طور پر خود کشی کی ہے جبکہ باقی سات لاشوں میں ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی، قتل کی اس لرزہ خیز واردات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اعلیٰ افسروں نے واردات میں ملوث نذیر کو ہی مجرم قرار دیا ہے۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مبینہ ملزم نذیر اور دیگر افراد کی موت میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ ہے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن چوہدری عبدالرب کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض نذیر اقبال کے جسم پر ہتھوڑے سے تشدد کے نشان نہیں تاہم اس کے کپڑے اور چہرے پر خون کے دھبے ملے۔ تاہم پولیس کی تحقیقاتی ٹیمیں لرزہ خیز واردات کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہیں۔ تحقیقاتی ٹیموں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ انہیں فرانزک سائنس لیبارٹری اور ڈی این اے کی تحریری رپورٹ کا انتظار ہے، جیسے ہی رپورٹ ملے گی اس سے صورتحال واضح ہو جائے گی۔