لاہور ( خصوصی نامہ نگار ) امیر جماعت اسلامی منورحسن نے کہا ہے کہ جس طرح دہشت گردی کی موجودگی میں مذاکرات ممکن نہیں اسی طرح جہازوں سے بمباری کی دھول میں بھی مذاکرات نہیں ہوسکتے، وزیر اعظم امریکی و بھارتی دبائو کو مسترد اور طاقت کے استعمال کے مطالبوں کو نظر انداز کرکے مذاکرات کی میز دوبارہ بچھائیں، جو ذمہ داری وزیر اعظم کی ہے اسے وزیر اعظم ہی پورا کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں، آپریشن تباہی کا راستہ اور عوام اور فوج کے درمیان نفرتوں کی دیوار کھڑی کرنے کی سازش ہے، وزیر اعظم نے اب تک جس تحمل اور بردباری سے کام لیا ہے امید ہے اسی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ مذاکرات کے تعطل کو دور کردیں گے اور مذاکرات کی میز پر ایک طرف طالبان کے کسی ذمہ دار کو بٹھا کر دوسری طرف خود بیٹھیں گے تو مسئلے کا حل نکل آئے گا، جیٹ طیاروں سے بمباری کرکے لوگوں کو دہشت زدہ تو کیا جاسکتا ہے کوئی ہدف یقینی طور پر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ آپریشن والے علاقوں سے لاکھوں لوگ لٹے پٹے قافلوں کی شکل میں بنوں اور پشاور کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ جن کیلئے خوراک اور رہائش کا مسئلہ انتہائی پریشان کن صورت اختیار کرچکا ہے۔ میڈیا کو یک طرفہ موقف دینے کے بجائے دوسرے کا موقف بھی پورا دینا چاہئے آدھی بات کر کے آدھی چھوڑ دینا انصاف نہیں ہے، وزیر اعظم دونوں کمیٹیوں کی بات سنیں اور قوم کو مایوسیوں کے حوالے کرنے کی بجائے امید کی کرن بنیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ منورحسن نے کہا کہ جب تک دہشت گردی کی ڈور کا سرا ہاتھ نہیں آتا ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ملک میں ہونے والی فرقہ وارانہ اور لسانی دہشت گردی میں بھی بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرتاج عزیز امریکہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے ہیں کہ ہمیں تنہا چھوڑ کر نہ جائیں۔ امریکہ کے پائوں سے لپٹنے کی شرمنا ک حرکت پر پوری قوم کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ جب تک امریکہ کا ایک بھی سپاہی اس خطے میں موجود رہے گا امن قائم نہیں ہو گا۔