لاہور(رفیعہ ناہید اکرام سے)ملک بھر کی ہزاروںخواتین وکلاء ترقی کے مساوی مواقع نہ ہونے اور وکالت کومردوں کی اجارہ داری کاشعبہ سمجھے جانے کے باوجودپرانتہائی پراعتماد اندازمیں اپنی صلاحیتوںکالوہامنوارہی ہیںتاہم سروے کے دوران معلوم ہوا ہے کہ چیمبرزکے حالات سازگار نہ ہونے پر سالانہ نصف سے زائدنوجوان وکلاء پریکٹس چھوڑکر دوسرے پیشے اختیارکرنے یا گھروں میں بیٹھ جانے پرمجبور ہورہی ہیں،سینئرمرد وکلاء کی اکثریت اپنی الیکشن کیمپینز میں توان سے کام لیتی ہے مگر انہیں چیمبرزمیں کام نہیں دیتی،دوسری جانب چیمبرزمیں انہیں ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ آج تک کوئی خاتون نظریاتی اسلامی کونسل اور سپریم کورٹ کی جج تعینات نہیں ہوئی،لاء کمیشن اورجوڈیشل کمیشن میںسینئر خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا، مقدمات کی بہترین پیروی پرفریق مخالف کے وکیل بدنام کرنے کیلئے الزام تراشیاں اور کردار کشی شروع کردیتے ہیں، کیس جیت جائیں تو مرد وکلاء انہیںنیچا دکھانے کیلئے ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ روز نوائے وقت سروے میں گفتگوکرتے ہوئے سابق ایگزیکٹو ممبر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمسہ علی نے کہا کہ صنفی مساوات کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، خواتین وکلاء کو فیصلہ سازی اور پالیسی میکنگ میں شامل کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل، سپریم کورٹ میں کبھی کوئی خاتون جج تعینات نہیں ہوئی۔ ممبر پنجاب بار کونسل غزالہ خان نے کہا کہ ایڈوئزری بورڈزاور کمیٹیوںمیںزیادہ تر متوالے اور جیالے ہی دکھائی دیتے ہیں خواتین کوموقع نہیں دیاجاتا۔میرٹ پرآنے کے باوجودسرکاری و غیر سرکاری ملازمتیں،لیگل ایڈوائزرز، سرکاری پینلسٹ،لیکیوڈیٹر،لوکل کمشنر،آکشنیئرکی پوسٹوں پر مردوکلاء ہی کو اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے۔ سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب و سابق فنانس سیکرٹری ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ربیعہ باجوہ نے کہا کہ محنتی، باکرداراور شارٹ کٹس پریقین نہ رکھنے والی خواتین وکلاء کی سبھی عزت کرتے ہیںتاہم وکلاء تنظیموں نے آج تک خواتین کیلئے کچھ نہیں کیا۔ سابق فنانس سیکرٹری ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن فردوس امتیاز نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں پورے ٹرائل کے دوران خاتون وکیل کی غلطیاں ہی نوٹ کی جاتی ہیں اور اگرکہیں کوئی سقم رہ جائے یاوہ ریلیف لے کرنہ دے سکے تو کہاجاتاہے’’ آپ سے توپہلے ہی کہاتھا خاتون کووکیل نہ کریں‘‘ کلائنٹس مرد وکلاء کو پانچ لاکھ روپے فیس تک دینے کوبھی تیار ہوجاتے ہیں مگر خواتین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پندرہ بیس ہزار میں مقدمہ لڑلیں گی۔ ممبرایگزیکٹوکمیٹی سپریم کورٹ کی امیدوار فوزیہ سلطانہ شیخ نے کہا کہ جونیئر وکلاء زیادہ مسائل کی شکار ہیں ان کی پیشہ ورانہ تربیت کیلئے اکیڈمیاں قائم کی جائیں،جب تک خواتین وکلاء منظم نہیں ہونگی مسائل میں گھری رہیں گی۔لبنیٰ چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب ہم کالاکوٹ پہن لیتے ہیں تو صنفی تفریق ختم ہوجاتی ہے، معاشرے میں عام عورت کے مقابلے میں وکیل خاتون زیادہ محفوظ ہے۔