حدیبیہ پیپرز ملز فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کرونگا چیرمین نیب نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں : سپریم کورٹ

Feb 22, 2017

اسلام آباد(این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ ادارے کام کرتے تو یہ کیس عدالت میں نہ آتا، ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200گز کے فاصلے پر واقع ہے، رابطہ کرنے میں چھ ماہ لگ گئے، گھنٹوں کے کام میں ایک سال لگا دیا گیا، لگتا ہے آپ کو تصدیق کےلئے 30 سال درکار ہیں۔ منگل کو سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران 5 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے طلبی کے احکامات کے بعد قومی احتساب بیورو اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین عدالت میں پیش ہوئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا کیا کردار ہے؟ کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانا غلط کام نہیں۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ ٹیکس کی جنت ہے جبکہ اس معاملے پر متعلقہ ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں تاہم وزارت خارجہ کے ذریعے ان ممالک سے رابطے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر کو وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے جبکہ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر واقع ہے۔ جسٹس عظمت سعید کے سوال پر کہ ایف بی آر نے پانامہ لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے؟ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ستمبر 2016 میں 343 افراد کو ایف بی آر نے پانامہ لیکس پر نوٹسز جاری کیے۔ ڈاکٹر ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹر کا نام ہونا کافی نہیں۔ پانامہ پیپرز میں سامنے آنے والے ناموں میں سے 39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں تھے جبکہ 52 افراد نے آف شور کمپنیوں کی موجودگی سے ہی انکار کردیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین ایف بی آر سے دریافت کیا کہ شریف فیملی کو جاری کیے گئے نوٹس پر کس نے جواب جمع کرایا جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر اپنا جواب 21 نومبر 2016 کو جمع کرایا۔ جواب کی تفصیلات بتاتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ مریم نواز نے کہا کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں، علاوہ ازیں مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی۔ چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز نے جواب میں کہا کہ وہ 2000ءسے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حسین نواز نے صرف بیرون ملک مقیم ہونے کا دفاع کیا، کیا اس جواب کے بعد آپ نے فائل بند کر دی؟ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ کیا آپ حسین نواز کے نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) کی تصدیق کرتے ہیں؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز کا این ٹی این درست ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2002 کے بعد پرانے این ٹی این منسوخ ہو گئے تھے کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا؟ چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے ریکارڈ سے چیک کر کے بتا سکتے ہیں۔ عدالت نے چیئرمین سے دریافت کیا کہ شریف خاندان کی جانب سے جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، اپنے اقدامات کو ریکارڈ سے ثابت کریں۔ چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے معلومات کی تصدیق میں وقت صرف کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو تصدیق کے لیے 30 سال درکار ہیں، گھنٹوں کے کام میں ایک سال لگا دیا گیا جبکہ کون کب سے بیرون ملک میں ہے اس کی معلومات ایک گھنٹے میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جس پر چیئرمین نے تسلیم کیا کہ اس ضمن میں فوری اقدامات نہیں کیے جاسکے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواءہے۔ چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹریول ہسٹری کےلئے کس ادارے کو کب درخواست دی گئی اس کا ریکارڈ دکھائیں جس پر وکیل ایف بی آر نے کہاکہ عدالت کو دکھانے کے لیے ریکارڈ موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم 39 آف شور کمپنی مالکان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ادارے کام کرتے تو یہ کیس عدالت میں نہ آتا۔ وکیل ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔ جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کچھ نہیں کیا؟ وکیل ایف بی آر نے کہاکہ پانامہ تحقیقات کا ریکارڈ پبلک نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسا کرنے سے تحقیقات متاثر ہو سکتی ہیں تاہم عدالت کو یہ ریکارڈ فراہم کیا جا سکتا ہے، حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا۔ چیئرمین ایف بی آر کے بعد چیئرمین نیب 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین نیب سے دریافت کیا کہ نیب کا موقف رہا ہے کہ پانامہ کا معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کا موقف یہ ہے کہ ریگولیٹر نہیں آیا، اسی لیے ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں؟ اور کیا نیب کو کوئی اور ریگولیٹ کرتا ہے؟ جس پر چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے اور نیب کا قانون، چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو بات چیئرمین نیب کر رہے ہیں ایسی باتیں قطری خط میں بھی شامل تھیں اور قطری خط میں بھی ریگولیٹر کی بات کی گئی تھی۔ پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بینک کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں عدالت کو گمراہ نہ کریں اگر نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار نہیں اب سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کون کرے گا؟ عدالت کے اس سوال پر کہ کیا نیب کا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے؟ چیئرمین نے کہا کہ ان کی تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے۔ عدالت نے کہاکہ 'اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں تاہم ایک سال گزر گیا اور نیب نے کچھ نہیں کیا جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھا تو جاتا، کیا کسی ایک بندے سے پوچھا گیا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟ اگر اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیں تو آپ بھی کسی کو بلا لیتے۔ جس کے بعد چیئرمین نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پانامہ لیکس میں نیب قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ چیئرمین نیب نے اپنے اختیار کو دفن کر دیا اور یہ ادارے کے مفلوج ہونے کا آئیڈیل کیس ہے۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا نہ ہی اپیل کی اور نہ ہی ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا، عدالت کو نیب کے اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں۔ چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ التوفیق کمپنی کے معاملے پر مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔ جس پر جسٹس عظمت نے جواب دیا کہ ایف آئی اے پاکستان کا ادارہ ہے اٹلی کا نہیں، کسی ملزم کی چار سو روپے کے کیس میں ضمانت ہو جائے تو نیب فورا اپیل فائل کرتا ہے، اس معاملے میں اربوں کی کرپشن پر اپیل نہیں کی گئی، ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ نیب اپیل کر سکتی ہے، تو آپ نے اپیل کیوں نہیں کی؟ چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پراسیکیوٹر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں پراسیکیوٹر نے رائے دی کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اپیل کی جاتی تو نیب کی بدنامی ہوتی اور میاں شریف حیات بھی نہیں تھے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے چیئرمین نیب سے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ کسی دباو¿ کے بغیر کیس کھولنے کے حق میں ہیں یا نہیں؟ جس پر چیئرمین نیب نے کہاکہ وہ اپیل دائر نہ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ سنگین نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار رہیں۔ وقفہ کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر وفاق کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ درخواستوں میں وزیراعظم کی نااہلی مانگی گئی اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حنیف عباسی نے بھی عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے اور کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے، درخواستیں کو وارنٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں جن کی سماعت کرنا عدالت کا معمول اور دائرہ اختیار نہیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی اور عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے تاہم آرٹیکل 184/3 کا اختیار اگر مشروط ہے تو اٹارنی جنرل اس بارے میں بتائیں، ساتھ ہی ایسی قانونی مثال بھی دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے بھی استعمال نہ کیے ہوں۔ اشتر اوصاف نے کہاکہ عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا ہے اور عدالت ان کی آواز بنی جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکی ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے، فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ نیب کی جانب سے اپیل دائر نہ کرنے پر درخواست گزار اب تک کیا کر رہے تھے؟ یہ درست ہے کہ غفلت برتنے پر نیب نے عوام کے بنیادی حقوق متاثر کئے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے؟ اور کیا ہم 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ سوال ان کے لیے آسان نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی یہی رائے ہے اور اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائےگی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اگر ہم نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو پھر چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج 22 فروری تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ سماعت کے آغاز پر ہی وزیر اعظم کے بچوں کے وکلاءکی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ وکلاءکے دلائل ختم ہونے کے بعد عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ درخواست میں کہا گیا کہ اگر عدالت ان دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بناتی ہے تو 8 ہفتوں کا وقت دیا جائے تاکہ شریف خاندان کے وکلاءاس پر بحث کےلئے تیاری کرسکیں۔ شریف خاندان کے وکلاءکی جانب سے عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف موجود درخواستوں پر سماعت مقرر کی جائے کیونکہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کے الزامات کو مسترد نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان نے لندن فلیٹس کا منی ٹریل پیش کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ پاناما معاملہ سامنے آنے پر فوری اقدامات نہیں کئے، چیئرمین نیب نے کہا متعلقہ اداروں کی طرف سے کارروائی کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اپنے خیالات پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پر اپیل دائر نہیں کروں گا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب، اب آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے؟ چیئرمین نیب نے کہا نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے، یہ ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا؟ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا، پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو بینک کی جانب سے تحقیقات کا کہا جاتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ہزاروں ریفرنس زیر التواءہیں جن میں بینکوں نے کارروائی کا نہیں کہا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے؟ اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا، نیب کا ریگولیٹر کون ہے؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب، اب بس کر دیں، آپ کو عدالت کی معاونت کا کہا تھا آپ نے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔
سپریم کورٹ

مزیدخبریں