گرینٹ ایلیٹ کی زور دار ہٹ اور بیٹ گرانے کا خوبصورت سٹائل‘ لاہور قلندر کی جیت کا مزہ دوبالا کر گیا۔
شکر ہے شارجہ میں لاہور قلندر کی ٹیم ادھر ڈوبے ادھر نکلے والی کیفیت سے باہر نکل آئی ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف میچ جیت کر قلندریوں کے حواس بھی بحال ہو گئے ہیں جو پے در پے شکستوں کے بعد خاصے بے حال ہو رہے تھے۔ گزشتہ روز کے سنسنی خیز میچ میں جسطرح آخری اوور میں لاہور قلندر کے گرینٹ ایلیٹ نے زور دار چھکا مار کر میدان مار لیا وہ جہاں خود ایک یادگار لمحہ تھا اس سے بھی زیادہ میچ جیتنے کی خوشی میں بلے والا ہاتھ بلند کرکے انکے بلا گرانے کے خوبصورت انداز نے شائقین کے دل موہ لئے۔ ان کا یہ امریکی صدر بارک اوباما والا انداز مدتوں یاد رہے گا۔ امریکی صدر نے بھی اپنی آخری تقریر میں خطاب مکمل کرنے کے بعد اسی انداز ہاتھ میں پکڑا مائیک زمین پر گرا دیا تھا۔ اس جیت کے ساتھ اب 5 مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے کی خبر نے لاہوریوں کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا ہے جہاں بڑی شدت سے اس خوبصورت یادگار کرکٹ مقابلے کے آخری میچ کا انتظار ہو رہا تھا۔ مگر دہشت گردی کے خوف سے ڈر تھا کہ تبدیل نہ ہو جائے۔ یہ فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ خوف اور دہشت پر امید اور امن کی فتح کا پیغام ہے جو پاکستان کے دل لاہور سے پوری دنیا میں پھیل رہا ہے....
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غلام مصطفی کھر کا تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ
کسی زمانے میں شیر پنجاب کہلانے والا یہ بوڑھا شیراب اپنی سیاسی تنہائی سے تنگ آکر تحریک انصاف کے رنگ ماسٹر عمران خان کے اشارے پر ان کے سرکس میں کرتب دکھانے آرہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اب خود مصطفیٰ کھر کا سیاست کے جنگل میں کیا اثر رہ گیا ہے۔ وہ دن گئے جب وہ شیر کہلاتے تھے۔ اس شیر کے دانت اور پنجے تو بھٹو مرحوم نے اپنے دور میں نکلوا دئیے تھے۔ اب تو سیاسی میدان میں لوگ انہیں نمائشی شیر کہتے ہیں۔ کبھی تنہا کبھی کسی جماعت کے سرکس میں اپنے درشن کروا کر یہ بس اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سرکس میں ان کے مقابلے میں پہلے ہی سے ایک عدد شیر شیخ رشید کی شکل میں موجود ہے۔ جو پہلے مسلم لیگ کے شیر تھے آج کل عمران خان کا باز بن کر مخالفین پر جھپٹتے ہیں۔ اب مصطفٰی کھر کی شمولیت کے بعد کہیں ان کا کاروبار ماٹھا نہ پڑ جائے۔ ویسے تو تحریک انصاف میں پرویز خٹک بھی شیر بننے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ذرا خرابی صحت یا کمزوری صحت کی وجہ سے وہ مخالفین کو ڈرانے میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ اتنے دھان پان کے شیر سے تو بچے بھی نہیں ڈرتے۔ سیاسی طور پر غلام مصطفٰی کھر کی شمولیت سے سرائیکی بیلٹ میں تحریک انصاف پر بھی کوئی خاص اثر پڑتا نظر نہیں آتا کیونکہ جنوبی پنجاب سے ان کے پاس مخدوم شاہ محمود قریشی جیسے سکہ بند پیر اور سیاسی رہنما موجود ہیں۔ انکے ہوتے ہوئے شاید مصطفی کھر جیسے متروکہ سیاستدان زیادہ موثر ثابت نہ ہوں....
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امیتابھ گجرات کے گدھوں کو بچانے کی مہم نہ چلائیں: وزیراعلیٰ یو پی
اب امید ہے امیتابھ جی کو شُدھ بھارتی لہجے میں یو پی کے اہل زباں وزیراعلیٰ کا مشورہ سمجھ میں آگیا ہو گا۔ جنہوں نے کمال مہارت سے فلمی دنیا کے اس چمکتے ستارے کو زمین کے حالات دیکھ کر کسی کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا سبق سکھا دیا ہے۔ کیا وہ اس احمق گدھے کا اصل چہرہ امیتابھ کو نظر نہیں آتا جو انتخابی جلسوں میں اِدھر اُدھر ذات پات اور مذہب کے نام پر کبھی دیوالی کا اور کبھی رمضان کا نام لے کر دولتیاں مارتا ہے۔ اور تو اور اسے قبرستان اور شمشان کا فرق بھی خاصہ تکلیف دیتا ہے۔ اگر اس گا¶دی میں ذرا بھر بھی عقل ہوتی تو منہ کھولنے سے قبل ہزار بار سوچتا مگر گجرات کا یہ گدھا تو بات بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اب ڈر ہے کسی دن یہ کسی لاہوری قسم کے مسلم قصاب کے ہتھے نہ چڑھ جائے جو گدھوں کی کھال اتارنے میں ماہر ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر گجرات کا یہ گدھا اپنی کھال ڈھونڈتا نظر آئے گا۔ ویسے بھی ماضی کا اجمل قصاب انہیں یاد ہی ہو گا۔ رہی بات امیتابھ کی تو وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں ویسے ہی عقل ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ ورنہ وہ پاگل گدھے کے حق میں بیان کیوں دیتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلاول اور آصف زرداری کا الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ موخر
موجودہ صورتحال میں یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے قائدین کی دور بینی کا ثبوت ہے۔ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی یہ تو پھر ہمارے عوامی رہنما ہیں ان کی جان تو ہزاروں جانوں پر بھاری ہوتی ہے۔ اس لئے یہ فیصلہ درست ہے۔ اہم رہنما¶ں کو ویسے بھی سکیورٹی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ اوپر سے اندرون سندھ کے حالات ویسے بھی دگرگوں ہیں۔ ڈاکو¶ں کے ساتھ دہشت گردوں نے ایک بار پھر محاذ گرم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سیاسی رہنما¶ں کو بھی عقل کے ناخن لینے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ لاکھ سندھ پیپلز پارٹی کا اپنا صوبہ سہی مگر دہشت گرد تو کسی کے نہیں ہوتے وہ تو ایک عدد خود کش جیکٹ پہن کر جنت کے ٹکٹ کٹوانے کے چکروں میں ہوتے ہیں۔ اب سہون شریف میں ان دہشت گردوں نے جو کچھ کیا اس کے بعد تو پیپلز پارٹی کی حکومت اندرون سندھ کے حالات دیکھ کر سہم گئی ہو گی۔ جہاں صرف بھٹو زندہ ہے اور عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب اگر پی پی پی نے اپنے ووٹروں کو بچانا ہے تو ان کے لئے ہر جگہ ہسپتال بنوانے ہوں گے اور دہشت گردوں اور ڈاکو¶ں کیخلاف اندرون سندھ رینجرز کو آپریشن کی اجازت دینا ہو گی۔ کیونکہ پولیس تنہا اس عفریت سے نمٹ نہیں سکتی۔ یہ بات اب خود سندھ حکومت کو بھی اچھی طرح پتہ چل گئی ہو گی۔
بدھ ‘ 24 جمادی الاوّل 1438 ھ ‘22 فروری 2017ئ
Feb 22, 2017