گزشتہ پانچ روز کے اندر ملک کے مختلف حصوں میں خود کش دھماکے اور تخریبی سرگرمیاں قوم کو سوگوار کئے ہوئے تھیںکہ جمعرات کو شام کے وقت سیہون شریف میں درگاہ لعل شہباز قلندر میں ایک خود کش دھماکے سے 90 سے زیادہ افراد شہید اور تین سو سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کا سانحہ پیش آیا‘ جہاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس قیامت صغریٰ کا المناک پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاک و زخمی ہونیوالوں کو سیہون شریف کے ہسپتال میں انتہائی کم سہولیات ہونے کی وجہ سے بروقت امداد مہیا نہیں کی جا سکیں کیونکہ متعلقہ ہسپتال صرف 26بستروں پر مشتمل ہے جبکہ ہسپتال کے ایم ایس کے مطابق شدید زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 50کے لگ بھگ تھی اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس حملے کو ملکی ترقی پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ہم میں سے ہر ایک پر حملہ ہے ‘ سب پر حملہ ہے‘ یہ پاکستان کے مستقبل پر حملہ ہے ‘ ایسے بزدلانہ حملوں سے سختی سے نمٹیں گے اور ملک کی ترقی کیلئے سخت اقدامات اٹھائیں گے‘ انہوںنے کہا کہ پوری قوم دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہے‘ صوفیوں کا تشکیل پاکستان میں اہم کردار ہے ایسے بزدلانہ حملوں سے ہم خود کو تقسیم نہیں ہونے دینگے اور پاکستان کی شناخت کیلئے ہم اس جدوجہد میں متحد کھڑے ہیں‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ قوم پرسکون رہے ہم دہشتگردوں سے فوری انتقام لیں گے‘ دہشتگرد افغانستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں‘ اب برداشت باقی نہیں رہی‘ قوم کالہو رائیگاں نہیں جائیگا۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ایجنسیاں علاقائی امن سے کھیلنا بند کردیں‘ اپنی سر زمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے ادھر اس سانحے کے بعد پاک افغان سرحد ہر قسم کی آمد و رفت کیلئے غیر معینہ مدت تک بند کر دی گئی۔ یہاں تک کہ پیدل سرحد پار کرنیوالوں پر بھی آمد و رفت کی پابندی لگا دی گئی ہے‘ جبکہ افغانستان کے سفارتی حکام کو جی ایچ کیو طلب کرکے افغانستان کی سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال کرنے پر احتجاج کیا گیا‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کیمطابق حکام کو 74دہشتگردوں کی ایک فہرست تھماتے ہوئے کہا گیا کہ یہ دہشتگرد پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں‘ ان کو فوری طور پر پاکستان کے حوالے کیا جائے یا پھر ان کیخلاف اقدام اٹھایا جائے‘ موجودہ صورتحال میں یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے کیونکہ عمومی طور پر غیر ملکی سفارتکاروں کو وزارت خارجہ طلب کرکے انہیں احتجاجی مراسلہ تھمایا جاتا ہے جبکہ گزشتہ پانچ روز کے دوران مسلسل دہشتگردانہ واقعات کے بعد سفارتی حکام کو جی ایچ کیو طلب کرنا مسئلے کی سنگینی کی نشاندہی کرتی ہے اور صورتحال کو کھلی جنگ سے تعبیر کرنے سے انداز کیا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے برداشت کی پالیسی کو مزید قبول کرنے پر پاکستانی حلقے کسی بھی طور تیار نہیں ہیں‘ سیہون شریف سانحے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرتے ہوئے حملہ آور کا نام عثمان انصاری بتایا ہے جبکہ پاکستانی حکام نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خود کش حملہ کسی خاتون کی کارستانی لگتی ہے کیونکہ خود کش نے خود کو جہاں اڑایا وہ مزار کے احاطے میں خواتین کے حصے کے قریب ہے‘ بہرحال مزید تفتیش کے بعد ہی اندازہ کیا جاسکے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے‘ ادھر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہو رہی ہے‘ لیکن ہم ملک کا تحفظ کرتے ہوئے ان حملوں کا بھرپور جواب دینگے‘ ان حملوں کی ہدایات دشمن قوتیں دے رہی ہیں‘ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تازہ دہشتگردانہ لہر میں بھارت کی ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کی مشترکہ تلویث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ اس وقت بھارت ہی کی ایماء پر افغانستان پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کی کیفیت سے گزر رہا ہے اور بھارت کے لب و لہجے کی نقل کرتے ہوئے کابل کے حکمران بھی پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود افغانستان کے اندرپاکستان سے بھاگے ہوئے دہشتگرد ایک بار پھر اکٹھے ہو رہے ہیں اور بھارت اور بعض غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان نے ان دہشتگردانہ کارروائیوں کو کھلی جنگ قرار دے دیا ہے ۔ ان کارروائیوں کا مقصد اگر ایک جانب پاکستان میں عالمی کرکٹ کے احیاء کو سبوتاژ کرنا ہے تو دوسری جانب سی پیک کے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنا ہے۔ ملک میںدہشتگردانہ حملوں کے تسلسل کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل درآمد نہ کرنے پر بحث ہو رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو صورتحال اس قدر سنگین نہ ہوتی‘ اس ضمن میں کالعدم تنظیموں پر مکمل پابندی اور انکے دوسرے ناموں سے اپنی سرگرمیاں جاری کرنے کا نوٹس لیا جاتا تو صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہوتی۔ خدارا! اس قومی سانحے کو سیاسی سکورنگ کیلئے استعمال کرتے ہوئے الزامات اور جوابی الزامات کی کوششیں نہ کی جائیں بلکہ ایک متحدہ قوم ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک دشمن قوتوں کیخلاف سکیورٹی ایجنسیوں کا ساتھ دیا جائے تاکہ اس غیر معمولی صورتحال سے باہر نکلنے میں قوم کامیاب ہوسکے۔دریں اثناء دہشتگردوں کیخلاف آپریشن پنجاب میں رینجر ز کی مدد لینے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ بعض اطلاعات کیمطابق پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے سمری تیار کر لی گئی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ فوجی عدالتوں اور پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے پہلے ہی احکامات جاری کر دیئے جاتے تو آج ان کے خاطر خواہ مثبت نتائج دیکھنے کو ملتے اور چار سدہ کچہری میں دہشتگردی اور خودکش دھماکے کی نوبت نہ آتی جسکے نتیجے میں مزید قیمتی انسانی جانویں ضائع ہو گئیں وطن عزیز سے دہشتگردی کے خاتمہ کو حکومت نے اپنی اولین ترجیح قرار دے رکھا ہے اور اب جب پورے ملک میں دہشتگردوں کیخلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ عوام بھی سکیورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں۔
آپریشن پنجاب میں رینجرز کی مدد لینے کا فیصلہ
Feb 22, 2017