لاہور (بی بی سی ڈاٹ کام) ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کو شکست دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بدعنوانی کے اس ماحول کو ختم نہیں کیا جاتا جو اس شدت پسند تنظیم کو پھلنے پھولنے میں مدد دے رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بدعنوانی کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں ان ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فوجی بجٹ میں جوابدہی کو سختی کے ساتھ لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ رپورٹ کے مطابق بدعنوانی اور اس سے پیدا ہونے والے حالات لوگوں کو دہشت گردی کی جانب لے جاتے ہیں اور اس کے فروغ میں تعاون کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب عراقی افواج دولت اسلامیہ کے مضبوط گڑھ موصل کو واپس لینے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہیں۔ 'بگ سپن' نامی رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دولت اسلامیہ نے بدعنوانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب اور بھرتی کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ نے اس ضمن میں اپنی بدعنوانی کی پردہ پوشی کرتے ہوئے خود کو بدعنوانی سے نجات دلانے والے مسیحا کے طور پر پیش کیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی کی ڈائریکٹر کیتھرن ڈکسن نے کہا: دولت اسلامیہ کے لیے بدعنوانی لوگوں کو ایک ساتھ لانے اور کامیابی حاصل کرنے کا اہم طریقہ کار ہے۔ ان کے مطابق بین الاقوامی برادری نے دولت اسلامیہ جیسی تنظیموں کے 'نظریات' سے نمٹنے پر زیادہ زور صرف کیا ہے اور اپنی زیادہ تر توجہ ان مذہبی بیان بازیوں پر مرکوز کی ہے جو یہ پیش کرتے ہیں لیکن انہوں نے ان مادی حالات کو پوری طرح نظرانداز کر دیا جن میں یہ پھلتے پھولتے ہیں۔ حکومت میں بدعنوانی کے خلاف متحرک رہنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں ان موضوعات کی نشاندہی کی ہے جنہیں دولت اسلامیہ جیسی تنظیمیں لوگوں کو بھرتی کرنے میں استعمال کرتی ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ اقربا پروری اور رشوت خوری جیسی منظم بدعنوانیوں کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ خود کو سکیورٹی، انصاف اور فلاح و بہبود فراہم کرنے والوں کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بدعنوانی نے حقیقی طور پر عراقی فوج جیسی بعض افواج کو کمزور کیا ہے۔ جب اس نے دولت اسلامیہ کے خلاف موصل میں حملہ کیا تو اس کے پاس لڑنے والے فوجی ناکافی تھے کیونکہ ہزاروں فوجیوں کو تنخواہ تو مل رہی تھی لیکن وہ کام نہیں کر رہے تھے۔ ڈکسن نے متنبہ کیا کہ اعلی ترین سطح پر اس مسئلے کو حل کیے بغیر دولت اسلامیہ کو شکست نہیں ہو سکتی۔ ڈکسن نے جو اس رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں بطور خاص یہ بات کہی کہ 'ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ہم مغربی ممالک کے ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ استحصال کرنے والی اور شکاری سرکاری افواج کو بنانے میں خرچ کریں۔' ڈکسن نے مزید کہا: یہ صرف بدعنوان راستوں کو بند کرنا نہیں ہے جس سے دولت اسلامیہ جیسی تنظیموں کے روز مرہ کے آپریشنز چلتے ہیں بلکہ ہمیں مستقبل کے مبارکوں (مصر)، قذافیوں (لیبیا) اور مالکیوں (عراق) کے ساتھ اپنے رشتوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق بدعنوانی اعلی طبقے کی جیبوں کو بھرنے کے ذریعے سے کہیں زیادہ سکیورٹی کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔