تیسری شادی‘ مبارک سلامت کی دھوم

تبدیلی آئے گی نہیں ‘ آچکی ہے اور تبدیلی ایک بار نہیں تین بار آئی ہے مگر حالات ہیں کہ جوں کے توں ہیں‘ بدلے نہیں‘بقول فانی بدایونی مے بدلی‘ نہ مے کشی کی روایت بدلی‘ صرف جام ومینا ہی بدل رہے ہیں۔ اس مرتبہ عمران خان کی شادی پر ملک بھر میں جشن برپا نہیں ہوا‘ بلکہ ایک اچھی روایت یہ بنی کہ اپنے پرائے سبھی سیاستدانوں نے دولہا میاں کو دلی دعاؤں سے نوازا‘ خواجہ سعد رفیق نے تو اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی کی حد کر دی‘ اپنی تمام نیک خواہشات عمران خان کے نام کر دیں۔ ملکی سیاست میں ایسی فراغ دلی اور بردباری اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آئی۔ سیاسی حلقے سبھی خوش ہیں‘ مخالف دھڑوں کے مقتدر سیاست دان اور سیاسی کارکنوں کو عمران خان کی تیسری شادی پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں‘ اعتراض ہے تو ان کے گھر والوں اور بچوں کو ہے اور یہ درست بھی ہے ‘ کیونکہ بچوں کو شفقت پدری چھن جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی‘ ان کی پہلی ہر دو بیویوں کا موقف اس بارے میں ایک ہی ہے‘ جس میں قلق بھی ہے اور پچھتاوا بھی۔ موقع ملے تو جمائمہ اور ریحام خان دونوں قابل اجمیری کا یہ شعر گنگنانا چاہیں گی۔ …؎
آ دیکھ مجھ کو بھولنے والے تیرے بغیر
دن بھی گزر گیا میرا‘ شب بھی گزر گئی
دوسری طرف عمران خان کی سائیکی میں ایک رویہ بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ یہ کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں‘ اب یارلوگوں کو معلوم ہوا کہ نت نئی شادیاں کرنا عمران کی جبلت میں شامل ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد شادی کی گٹھڑی سر سے اُٹھا کر نیچے زمین پر پٹخ دینا ان کی عادت‘ لہذا اس تناظر میں بہت سے سیاسی اور سماجی حلقوں کا وثوق کے ساتھ کہنا ہے کہ ان کی تازہ ترین شادی کا معاملہ بھی خدانخواستہ زیادہ چلتا ہوا نظر نہیں آتا‘ ستارہ شناسوں میں سے بھی بہت سوں کا موقف بھی یہی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں کچھ بھی ہو فارسی میں کہتے ہیں جبل گردد‘ جبلت نگر دد‘‘ اس تناظر میں سوچا اور سمجھا جائے تو عمران کی جبلتوں میں کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود پورے ملک کے سنجیدہ حلقوں اور مثبت سوچ کے حامل لوگوں کی دلی دعا ہے کہ عمران خان تیسری مرتبہ اپنی ازدواجی زندگی کی تمام برکتوں سے مالا مال ہوں‘ ان کی زندگی اور طرز عمل میں ٹھہراؤ آجائے اور وہ بہت سے فکری اور عملی امور میں انتہا پسندی کے رحجانات سے باز آجائیں۔ کسی کو بھی کسی شخص کی ذاتی اور گھریلو زندگی میں مداخلت کا حق حاصل نہیں اور بالخصوص اس حقیقت کے باوصف کہ عمران خان نے بذات خود کبھی کسی کی ذاتی اور گھریلو زندگی کے پرائیویٹ معاملات کو ہدف تنقید نہیں بنایا۔ اس سچائی کے ہوتے ہوئے ان کے سخت مخالفین بھی انہیں دعاؤں اور نیک خواہشات سے نواز رہے ہیں۔ کسی نے بھی ان کے سڑسٹھ سالہ بزرگ ہونے کے حوالے سے نکتہ چینی نہیں کی اور سیاستدان تو اصولی طور پر بزرگی میں شادیوں کے یوں بھی مخالف نہیں‘ غلام مصطفیٰ کھر اور سردار ذوالفقار کھوسہ سے لے کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بہت سے بزرگ رہنماؤں نے پیرانہ سالی میں شادیاں رچا رکھی ہیں اوروہ بظاہر خوشحال اور خوش وخرم زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان نے بادی النظر میں کوئی انہونا کام نہیں کیا‘ اسلامی شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ کسی کلمہ گو کو ایک دن بھی شادی کے بغیر نہیں رہنا چاہیے اور بیک وقت چار شادیوں کی اجازت بھی اس ضمن میں موجود ہے‘ لیکن جملہ معترضہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے یارغار جو کبھی ان کے دوستوں کی لسٹ میں سرے سے موجود ہی نہ تھے‘ شیخ رشید ان کھلے حقائق سے یکسر نابلد لگتے ہیں‘ اس حوالے سے ان کی باتیں بہت عجیب وغریب ہیں اور سخت سرزنش کے لائق بھی‘ وہ گھرمیں بھینس اور بیوی رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ اس ضمن میں ان کی بہت سی تاویلیں ریکارڈ پر موجود ہیں‘ جن کا کھلے عام تذکرہ کرنا جسارت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک ستارہ شناس اور نجومی جو وظائف بتانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں کا کہنا ہے اگر شیخ رشید اپنے یار عمران خان کی جوٹھی پلیٹ میں کھانا ہی کھالیں تو اس عمر میں بھی وہ ایک نہیں دو‘ دو شادیاں کرسکتے ہیں‘ لیکن ہمارا خیال ہے‘ وہ ایسا نہیں کریں گے‘ شادی سے ڈرنا ان کا تنازعہ نہیں بلکہ وہ شادی کے جھنجٹ میں پڑ کر اپنا خود ساختہ مورال ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ان کا یہ خیال بھی مفروضے پر مبنی ہے‘ جس کی اصل جاننے کے لیے انہیں عمران سے کونسلنگ لینے کی ضرورت ہے۔
شادی کے معاملے میں عمران خان کی جبلت میں بغاوت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے‘ ریحام کی شادی بھی انہوں نے اپنے اہل خانہ اور بچوں کی مخالفت کے باوجود رچائی اور اس وقت بھی یہ خبر عام ہے کہ انہوں نے اس بغاوت کی روایت کو زندہ رکھا‘ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذاتی اور پرائیویٹ زندگی کے فیصلے ازخود کرتے ہیں‘ اس ضمن میں اپنے دوستوں کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے‘ عملی سیاست کی دوڑ دھوپ اور تھکن کے مضر اثرات کم کرنے کے لیے بھی انہیں ایک آئیڈیل بیوی کی خواہش ہمیشہ رہی‘ خوب سے خوب ترکی تلاش بھی ان کا جبلی تنازعہ رہاہے ‘ انہوں نے اس بار ایک روحانی اور اسلامی ذہن کی جہاندیدہ خاتون سے عقد کیا ‘ اس حوالے سے اُمید واثق یہی ہے کہ ان کی زندگی روحانیت پر استوار ہو کر بہت سے ابہام اور کلیشوں سے آزاد ہو جائے گی۔ عمران خان کی شادی کو بنظر عمیق دیکھنے والوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ان کے دنیاوی اور دینی لگاؤ میں مثبت رحجانات در آئیں گے اور شاید وہ اب پہلے والے عمران خان نہ رہیں‘ سماجی اور رفاہ عامہ کے بہت سے کام کرنے کے باوصف وہ روح اسلام کی حقانیت کے قریب ہیں‘ لہذا کیا ہی اچھا ہو ان کی نئی دلہن انہیں عبادات کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے گہرے مطالعہ اور تصوف کے باطنی اسباق سے بہرہ مند کرسکیں‘ ایسا ہو جائے تو اخلاقی اور روحانی طور پر ان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ عمران خان کو ان کی نئی دلہن بہت سے تنازعوں سے بچا سکتی ہیں۔ مثلاً وہ بھلے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی اصولی جدوجہد کریں‘ تحریک چلائیں لیکن دوسروں کی عزت نفس کو اچھال کر حظ اُٹھانے سے باز رہیں۔
ایک عام پاکستانی کا کہنا ہے عمران خان تمہیں تیسری شادی مبارک ہو‘ تاہم ایک بات یاد رکھنا زندگی میں بعض تجربات کرنے کے مواقع محدود ہوتے ہیں‘ ہر بار ناکامی اور اس کے بعد پھر شادی کا تجربہ شاید اس کے بعدنہ ہوسکے‘ آزمائش بھی دو تین مرتبہ ہی کی جاسکتی ہے‘ سو مرتبہ نہیں‘ تم سپورٹس مین ہو‘ تم نے اپنی صحت وعافیت کو سنبھال کررکھا‘ اسے مزید سنبھالو اور اب اپنے ذہن اور دل ودماغ کو شادی کامیاب کرنے کے اصول وضوابط پر استوار کرو‘ اللہ تمہارا حافظ وناصر ہو اور تمہاری نئی ازدواجی زندگی دوسروں کے لیے مثال بن سکے (آمین)

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن