شام میں بشارالاسد کی فضائیہ کے باغیوں کے زیر قبضہ شہروں اور قصبوں پر حملوں میں شدت آرہی ہے۔ غوطہ شہر پر دوسرے روز کے فضائی حملوں میں 12 بچوں سمیت 110 شہری اور اتحادی طیاروں کی شہر بوکمال پر بمباری سے 9 خواتین سمیت 126 افراد جاں بحق ہوگئے۔ دو روز میں ہلاکتیں 253 ہوگئیں۔ غوطہ 2013 سے محاصرے میں ہے۔ حکومت مخالف باغیوں کے زیر انتظام آخری محصور علاقہ ہے۔
شام میں ’’عرب بہار‘‘ کی لہر کے تحت مارچ 2011ء میں صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ شام میں 15 فیصد شیعہ اور تقریباً 80 فیصد سنی مسلمان ہیں۔ کچھ عیسائی بھی ہیں۔ صدر بشار سے پہلے انکے والد حافظ اسد بھی جو جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے تھے برسوں حکمران رہے۔ اسد خاندان کا تعلق علویوں سے ہے۔ بغاوت کے ابتدائی دنوں میں باغی بڑی تیزی کے ساتھ مختلف علاقوں پر قابض ہوتے گئے۔ دمشق سقوط کے قریب تھا کہ ایرانی کمک پہنچ گئی، جس نے صدربشار کو بڑا سنبھالا دیا۔ جب باغیوں کی پسپائی شروع ہوئی تو داعش بھی اس خانہ جنگی میں کود پڑی۔ یہیں سے شام میں صدی کا سب سے بڑا انسانی المیہ شروع ہوا۔ یہ قضیہ اس لئے بھی بڑھا کہ شام میں روس، چین، ترکی، ایران اور آخر میں امریکہ سمیت سب کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ بیشتر قوتیں آمر مطلق بشارالاسد کا اس لئے ساتھ دے رہی تھیں کہ انہیں خدشہ تھا اگر باغی کامیاب ہو گئے تو انکے تجارتی و صنعتی و معاشی مفادات خطرے میں پڑ جائینگے۔ نفسانفسی اور خود غرضی کی اس کشمکش نے ایک نہایت خوبصورت ملک کو ویرانوں میں تبدیل کردیا۔ اس کا اولین حل یہ تھا کہ صدر بشار آزادانہ انتخابات کرا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیتے تاکہ غیر ملکی مداخلت کا دروازہ نہ کھلتا۔ دوسرا حل یہ تھا کہ تمام سٹیک ہولڈر، صدر بشار اور آزادی خواہوں کو مسئلہ کے پر امن اور جمہوری حل کیلئے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرتے، ساتھ ہی غیر ملکی مداخلت کی تمام راہیں مسدود کردی جاتیں۔ تعجب ہے کہ بیشتر سٹیک ہولڈروں نے اپنا وزن ایک آمر مطلق بشارالاسد کے پلڑے میں ڈالا۔ لاکھوں شامی اجڑ کر، ترکی، جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں میں پناہ کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شام کی ایک چوتھائی آبادی اس خانہ جنگی کی نذر ہوچکی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اپنا کردار نہیں ادا کیا۔ انسانیت کے نام پر بڑی طاقتوں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام فریقوں میں جنگ بندی کراکے مسئلے کا پر امن حل تلاش کریں۔ اگر تاخیر ہوئی تو شام میں صدربشار یا حکومت مخالف قوتوں کے پاس حکمرانی کیلئے کچھ نہیں بچے گا۔