لاہور+اسلام آباد(ایف ایچ شہزاد سے+خصوصی نمائندہ) سپریم کورٹ کی طرف سے میاں نوازشریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دینے کے باوجود دستور پاکستان اور مروجہ قوانین کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن) کوسینٹ انتخابات میں حصہ لینے کا حق ہوگا۔ تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن کمشن کی طرف سے نئے صدر کی منظوری سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لئے ازسر نو شیڈول جاری ہوسکتا ہے جس سے سینٹ کے انتخابات میں کچھ روز تک تاخیر ممکن ہے۔ دستور پاکستان کے تحت الیکشن کمشن آف پاکستان ایک خودمختار ادارہ ہے جو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ازسر نو شیڈول جاری کرسکتا ہے سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف کو الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کی گئی قانون سازی کو دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 سے متصادم قرار دے کر پارٹی صدارت سے نااہل کیا گیا ہے۔ آئینی و قانونی حلقوں کے مطابق سپریم کورٹ کے اس حکم سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کا سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوتا۔ اس لئے ایک طرف مسلم لیگ(ن) کا سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینا ان کا بنیادی حق ہے جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے میاں نوازشریف کی طرف سے بطور پارٹی سربراہ سینٹ کے امیدواروں کی منظور کردہ لسٹ منسوخ ہوچکی ہے۔ ان دونوں پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمشن کے پاس مروجہ قانون کے تحت یہ اختیار ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر کی منظوری سے سینٹ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرے۔ جس کے لئے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرنے کی حد تک شیڈول میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اگر الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کیا تو سینٹ کے انتخابات میں زیادہ تاخیر ہوسکتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امید ہے کہ الیکشن کمشن سینٹ انتخابات وقت پر کرائے گا کسی نے غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کا نتیجہ بھی بھگتے گا۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ سینٹ ٹکٹ منسوخ ہونے پر تمام ضمنی الیکشن بھی کالعدم قرار دیدیئے جائیں گے تاہم جن کو پارٹی ٹکٹ نواز شریف نے جاری کئے، اگر وہی ٹکٹ قائم مقام صدر دے گا تو ٹکٹ کالعدم قرار نہیں ہوں گے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ابھی سینٹ الیکشن بہت دور ہیں، دوبارہ کاغذات نامزدگی لئے جائیں گے۔ اپیل میں جاسکتے ہیں تاہم اپیل کو سٹے نہیں ملے گا۔ آن لائن کے مطابق کنور دلشاد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیت پر بھی حرف آئے گا۔ نواز شریف نے جو فیصلے کئے ہیں وہ عدالتی فیصلے کے بعد کالعدم ہوچکے ہیں ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک بحرانی کیفیت ہے اس وقت وزیراعظم ، کابینہ پر سوالیہ نشان اٹھ چکے ہیںجبکہ سینٹ کے الیکشن اور ضمنی انتخابات آئین کے تحت کالعدم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے نامزد کیا تھا اس لئے ان کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں اور امکان ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے نااہل ہو جائینگے۔ علاوہ ازیں سابق جج ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ نواز شریف سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے، فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔
لاہور (شہزادہ خالد) سپریم کورٹ کے فیصلے پر آئینی اور قانونی ماہرین نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔ نواز شریف فیصلے کے خلاف 30 یوم کے اندر نظرثانی کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل طارق عزیز نے کہا ہے کہ فیصلہ قانون کے عین مطابق اور درست ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی قانون کی تشریح کرسکتی ہے۔ نواز شریف 30 دن میں اپیل کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل ولایت چودھری نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے بنایا گیا قانون بدنیتی پر مبنی تھا، اسے ختم کرنا آئین اور قانون کے مطابق ہے کیونکہ یہ کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ آئین میں موجود ہے کہ کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ ندیم بٹ نے کہا ہے کہ پارٹی کی صدارت کیلئے کسی شخص کو منتخب کرنے ہیں اس میں سپریم کورٹ کا کوئی تعلق نہیں۔ پارٹی کے ممبران کا استحقاق ہے کہ وہ جس کو مرضی پارٹی کا سربراہ بنالیں۔ سپریم کورٹ نے جس طرح پانامہ پر کمزور فیصلہ دیا ہے اسی طرح یہ بھی ایک کمزور فیصلہ ہے۔ ماہر قانون مدثر چودھری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف اور قانون پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت یہ دیکھتی ہے کہ قانون کیا کہتا ہے، وہ کسی شخص کو نہیں دیکھی، یہی فیصلہ بنتا تھا۔ مسلم لیگ ن لائرز فورم کے سابق عہدیدار مشفق احمد خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ نواز شریف کو قانون میں ترمیم کرکے پارلیمنٹ نے اہل قرار دیا تھا جو بالکل قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر کے بنائے قانون کو پارلیمنٹ کے قانون پر ترجیح دی۔
ماہرین