جج کو اپنی عزت خود کرانی چاہیے، ٹھوک بجا کر انصاف کریں، ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے: چیف جسٹس

Feb 22, 2018 | 18:52

ویب ڈیسک

 چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے کیوں کہ ملک کی بقا قانون کی حکمرانی سے منسلک ہے،جج کی مجبوری یہ نہیں کیا کہنا ہے یہ ہے کیا نہیں کہنا،ملک کی بقاءقانون کی حکمرانی میں ہے اور قانون سب کےلئے برابر ہونا چاہیے، جج کو اپنی عزت خود بھی کرانی چاہیے، ٹھوک بجا کر انصاف کریں، جو بنتا ہے وہ فیصلہ کریں،نتائج کی پرواہ نہ کریں ،خوف مصلحت اور مفاد کسی بھی قاضی کےلئے زہر قاتل ہے،ہم کسی کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے،نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کر دیا ہے ،برائیوں کے خلاف لڑ رہا ہوں ،جون تک تمام ریفرنسز نمٹا دئیے جائیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جج کا کام انصاف کی فراہمی ہے، اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے کیونکہ اس ملک کی بقا قانون کی حکمرانی سے منسلک ہے اور اس کا مطلب ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کو سستا اور جلد انصاف فراہم کریں تاہم ہم نے کسی کے خلاف محاز آرائی نہیں کرنی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگوں کی خدمت کے لیے وکلا کو سخت محنت کرنی ہوگی، شفاف اشیا کی فراہمی کے لیے کوشاں ہوں تاہم ہم اصل سمت سے ہٹ گئے ہیں، ہم نے کسی ادارے سے محاذآرائی نہیں کرنی، ہمیں جنگ اپنے ساتھ لڑنی ہے اور ان لوگوں کی جنگ لڑنی ہے جن کے پاس اپنے حقوق حاصل کرنے کی استطاعت نہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثارکا کہنا تھا کہ وکلا سماجی مسائل کو حل کرنے میں میری فوج ہیں، وکلا میرے سپاہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں جنگ شروع کردوں، میں نے انصاف کی فراہمی کا حلف لیا تھا، میں اپنی ذمہ داری پوری کررہاہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں معاشی برائیوں سے لڑرہا ہوں، محنت کرنے سے فوری انصاف کی فراہمی کا موقع آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جج کی مجبوری یہ نہیں کہ اسے کیا کہنا ہے، بلکہ یہ سوچنا ہے کیا نہیں کہنا ہے، جب کیا نہ کہنے کی صورت میں ہوں تو بہت چیزیں آپ کہہ نہیں پاتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ چیزوں سے سو فیصد اتفاق ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی ہو کیونکہ ملک کی بقا قانون کی حکمرانی سے منسلک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے بے انصافی کی رمق رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کی عملداری اور مضبوط جوڈیشل سسٹم ضروری ہے۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی کارکردگی ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے، صاف پانی اور سستا انصاف جیسے مسائل یہ سب میری کاوش اور جدوجہد ہے، بدقسمتی سے ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے لیکن اب بھی وقت ہے، انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے مسائل حل کرنے میں وکلا میرا ساتھ دیں، میں سوسائٹی کی لعنت کے خلاف جنگ لڑرہا ہوں، یہ سب میرے فرائض میں شامل ہے کسی پر احسان نہیں کررہا۔انہوں نے مزید کہا کہ جج کو اپنی عزت خود بھی کرانی چاہیے، ٹھوک بجا کر انصاف کریں، جو بنتا ہے وہ فیصلہ کریں، قطع نظر کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قاضی کے لیے تین چیزیں زہر قاتل ہیں، خوف، مصلحت اور مفاد، جب قاضی سے یہ باہر نکل جائے تو وہ انصاف فراہم کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں منافق نہیں ہوں، جو سمجھ آتا ہے وہی کرتا ہوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے معاشرے سے نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کرنے کے لیے بنیاد رکھ دی ہے تاہم یہ آپ دوستوں پر منحصر ہے کہ آپ اس پر کس طرح عمارت قائم کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دورانِ تقریب ایک پیغام پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ مجھے پینے کا صاف پانی چاہیے، مجھے صاف ہوا اور صاف ماحول چاہیے، مجھے خالص دودھ چاہیے، مجھے مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھانا، مجھے کینسر اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں سے تحفظ چاہیے، مجھے میری فصلوں کی جائز قیمت ملنی چاہیے، مجھے ہسپتالوں میں مفت علاج چاہیے، مجھے سستا اور معیاری انصاف ملنا چاہیے۔مذکورہ پیغام کو پڑھنے کے بعد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تمام چیزیں عوام کو فراہم کرنا ہی ہماری جدوجہد ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا، میں نے معاشرے کی لعنت کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔چیف جسٹس نے شرکا سے خطاب میں بھرپور انداز میں خوش آمدید کہنے پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تقریب میں غیر معمولی عزت سے نوازا گیا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اب تک 43 ریفرنسز نمٹا چکے ہیں، تاہم جون تک تمام ریفرنسز کو نمٹا دیا جائے گا۔چیف جسٹس نے نوجوان وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو محنت کرتے ہوئے لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن جیسے نامور اور صفت اول کے وکلا کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے اور اگر آپ سخت محنت کریں گے تو یہ موقع آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں بطور وکیل تقرری کی 12 سال پریکٹس کی مدت کی شرط کو کم کرتے ہوئے اسے 7 سال تک مقرر کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ اس مدت میں کمی کی وجہ سے وہ ماہر وکلا جو اس شرط کی وجہ سے سپریم کورٹ نہیں آسکتے، وہ اب سپریم کورٹ میں بھی وکالت کے فرائض انجام دے سکیں گے۔خطاب کے اختتام پر چیف جسٹس نے جج اور وکلا کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو سخت محنت کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی ہے اور معاشرے کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے جو بیڑا ہم نے اٹھایا اس میں آپ کی مدد درکار ہے۔

مزیدخبریں