ٹرمپ کی پلوامہ حملے پر پاکستان بھارت کشیدگی بڑھنے پر تشویش اور بھارتی میڈیا کی سعودی ولی عہد اورمودی پر چڑھائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پلوامہ حملے کو بھیانک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے سے ہولناک صورتحال پیدا ہوئی جس سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ گزشتہ روز وائٹ ہائوس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے پاکستان بھارت تعلقات کی بہتری کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ بھارت میں تعینات امریکی سفیر کینتھ جیسٹر نے باور کرایا کہ پلوامہ میں ہونے والے فدائی حملے کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بھارت کے ساتھ تعاون کا امریکی عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردوں کی پناہ گاہوںکی موجودگی کا الزام عائد کیا اورکہا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنا ہونگی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن نے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر آفس کے ترجمان رابرٹ کولویل نے توقع ظاہر کی کہ دونوں ہمسایہ ایٹمی ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے خطے میں غیریقینی کی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ پلوامہ خودکش حملے کے فوری بعد امریکہ نے بھی بھارت کے لب و لہجے میں بلا ثبوت اس دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا اور امریکی دفترخارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں اس امر کا تقاضا کیا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے اور پلوامہ حملے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔ بھارت میں تو پاکستان کو دہشت گردی کا موردالزام ٹھہرانے کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی جس کے حکومتی اور اپوزیشن قائدین اور میڈیا کو اور کوئی موضوع ہی نہیں مل رہا اور وہ تواتر کے ساتھ پاکستان کو سبق سکھانے کی گیدڑ بھبکیاں لگا تے نظر آتے ہیں۔ بطور خاص بھارتی میڈیا تو پاکستان دشمنی میں باؤلا ہوا جا رہا ہے جو پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر زور دینے والے اپنے وزیراعظم نریندر مودی کے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ معانقہ اور ان کے استقبال کیلئے خود ایئرپورٹ جانے پر بھی لٹھ لیکر ان کے پیچھے پڑا ہے اور باوجود اس کے کہ سعودی ولی عہد کے اس دورے کے موقع پر بھارت اور سعودی عرب کے مابین 38 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے جو پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے تقریباً دو گنا ہیں مگر بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کو اس لئے یہ معاہدے ہضم نہیں ہور ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے مودی سے ملاقات کے دوان پلوامہ حملے کا تذکرہ کیوں نہیں کیا اور پاکستان کو بھارت کی طرح اس حملے کا ذمہ دارکیوں نہیں ٹھہرایا۔ ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ بھارتی حکمران بی جے پی اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کے ساتھ خبث باطن کا اظہار تو بی جے پی کے اقتدار کے آغاز سے ہی جاری ہے جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف سابق حکمران کانگرس کے مقابل کوئی نہ کوئی پوائنٹ سکور کرنے کی جلدی میں نظرآتے ہیں اور اس تناظر میں مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں کمی نہیں آنے دی اور کنٹرول لائن کیساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوجوں کے مظالم کی نئی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں جو عالمی برادری کیلئے چشم کشا ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا اور مودی سرکار کے مخالف سیاستدان و دانشور بھارتی مفادات کیلئے سعودی ولی عہد کے ساتھ ڈالی گئی جپھی پر مودی کو بخشنے کو تیار نہیں اور پلوامہ حملے کے بعد جہاں تسلسل کے ساتھ پاکستان کے لتے لئے جارہے ہیں وہیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف مودی کی بڑھک بھی بھارتی میڈیا میں ان کیلئے تعریف و توصیف کی راہ ہموار نہیں کر سکی اور وہ یقینا اس لئے تنقید کی زد میں ہیں کہ انہوں نے اب تک پاکستان پر حملہ کیوں نہیں کر دیا۔
یہ ہندو جنونیت ہی ہے جسے پاکستان دشمنی میں اس امر کا بھی احساس نہیں کہ دو ایٹمی ملکوں میں جنگ کی نوبت آئی تو اس کا انجام کتنا بھیانک ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کی بڑھک کے جواب میں بھارت کو یہی باور کرایا ہے کہ اس نے حملہ کیا تو پھر ہمارے پاس سوچ بچار کا وقت نہیں ہوگا۔ ہم فوری اور بھرپور جوابی کارروائی کریں گے کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہوگا۔ یہ امر واقع ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گی تو لامحالہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہونگے جن کی تباہ کاریاں اس کرہ ارض کا کیا نقشہ بناتی ہیں اس کا عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کو بہر صورت احساس و ادراک ہونا چاہئے مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ امریکی ٹرمپ انتظامیہ بھی پاکستان کے بارے میں مودی سرکار جیسی ہی انتہاپسندانہ پالیسیاں اختیار کر چکی ہے اور بجائے اس کہ پلوامہ حملے کے حوالے سے بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بڑھائی گئی کشیدگی پر مودی سرکار کو شٹ اپ کال دی جاتی ذاتی واشنگٹن انتظامیہ خود بھی بھارتی لب و لہجے میں پاکستان پر پلوامہ حملے کا ملبہ ڈالے چلی جا رہی ہے جس سے ہذیانی کیفیت کا شکار مودی سرکار کے پاکستان کی سلامتی کے خلاف حوصلے مزید بلند ہوں گے اور کوئی بعید نہیں کہ امریکی شہہ پر بھارتی وزیراعظم لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے پاکستان کے خلاف کارروائی کی اپنی گیڈر بھبکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیں۔ یہ بلاشبہ ایک ایسی آگ ہو گی جس کی لپیٹ میں آنے سے امریکہ سمیت اس کرہ ارض کی کوئی متحرک اور ساکت و جامد چیز نہیں بچ پائے گی۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف وحشت و بربریت کا جو ماحول گرمایا جا چکا ہے۔ جس میں ہندو انتہا پسند بھارتی جیل میں قید پاکستانی قیدی کو بھی پتھر مار کر شہید کرنے سے باز نہیں آئے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو جنونیت کی بھڑکائی جانے والی یہ آگ اس خطے سے نکل کر کہاں کہاں تک پھیل کر ان کی تباہ کاریوں کا اہتمام کرے گی۔ اسی خطرے کو بھانپ کر دو روز قبل چین کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات پر زور دیا گیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اقوام متحدہ سے بھارتی جنونیت کا نوٹس لینے کی اپیل پر یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹریس نے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین تصفیہ کے لئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ اسی طرح گزشتہ روز یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی بھارت پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں قتل عام بند کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے۔
پاکستان کی جانب سے تو تمام تر بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیاجا رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے مودی سرکار کی ہرزہ سرائیوں کے باوجود اسے مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ بھارت پلوامہ حملہ میں ہمارے لوگوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پیش کر ے تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی مگر چین سے بیٹھنا ہندو بنیاء کی سرشت میں ہے نہ پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات کی بحالی مودی سرکار کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس کے برعکس مودی سرکار عملاً باؤلی ہو کر پاکستان کو کاٹ کھانے کی ہذیانی کیفیت کا شکار نظر آتی ہے جس سے اس خطے کے دو ارب سے زائد باشندوں کوبیٹھے بٹھائے خطرات سے دوچار کر دیا گیاہے۔ یقینا برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اس لئے بھارت بے سروپا الزام تراشی کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھاتا اور اس کی سلامتی کو مسلسل چیلنج کرتا رہے گا اور اسی طرح امریکہ بھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف جلتی پر تیل ڈالے گا تو پھر پاکستان کے پاس اپنے تحفظ و دفاع کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے کے سوا کیا چارہ کار رہ جائے گا۔ اگر سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ بھارت کے موقع پر جنونی ہندوئوں کی خواہشات کے برعکس پاکستان کو پلوامہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیاہے تو یہ بلاشبہ ان کی مثبت اور تعمیری سوچ ہے جس میں یقیناً پاکستان، بھارت تعلقات سازگار بنانے کی ان کی خواہش کا بھی عمل دخل ہو گا۔ مگر بھارتی میڈیا اور مودی مخالف سیاستدان و دانشور تو اس پر شہزادہ محمد بن سلمان کے علاوہ مودی کو بھی مطعون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ یہ صورتحال قیام امن کی داعی عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر انہوں نے ہندو انتہا پسندی اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف جاری بھارتی سازشوں کے آگے بند نہ باندھا تو پھر شائد انہیں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لئے کوئی چارہ کرنے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔