فکرقائدؒ کا آئینہ دار

حکومت کی پالیسوں سے عوام پریشان بھی ہیں لیکن جو بنیادی اہم مثبت فیصلے کیے جارہے ہیں اس کے اثرات اب آہستہ آہستہ نچلی سطح پر مرتب ہورہے ہیں پنجاب حکومت نے وہ انتظامی افسران جو ایمانداری ، انتظامی صلاحیتوں اور فر ض شنا سی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے ان کو عوامی خدمت کا فریضہ سونپ دیا ہے اب وہ سیکرٹریٹ کی بجائے ہر ضلع میں اپنی صلاحیتیں منوانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے حکومت کی یہ کوششیں ثمر آور دکھائی دے رہی ہیں اس کی ایک جھلک پنجاب کے تاریخی شہر حسن ابدال جو عظیم روحانی شخصیت سید حسن ولی قندھاری کے نام سے حسن ابدال اور سکھ مذہب کے پیشوا بابا گرونانک جی کی نسبت سے پنجہ صاحب کہلاتا ہے میں دکھائی دینے لگی ہے ماضی میں حکومتوں کی تعیناتی کی ترجیحات میں وہ آفیسر بھی شامل تھے جو کرپشن قبضہ مافیا اور وقت گزارو نوکری سنوارو کی پالیسی پر کاربند رہتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے اُن افسران کو انتظامی خدمت کا موقع دیا ہے جو صحیح معنوں میں عوامی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں ماضی میں حسن ابدال میںصفائی، خوبصورتی، انتظامی رِٹ کا قائم کرنا ، محدود فنڈزکا صحیح استعمال ، سرکاری ملازمین کو راہ راست پر لانے جیسے اَمور کے بارے میں سوچنا بہت مشکل نظر آتا تھا یہ سحر حالیہ دنوں میں تعینات ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر راجہ عدنان کیانی نے یکسر توڑ کر رکھ دیاہے۔ راجہ عدنان کیانی اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں وہ2013 سے صوبائی محکمہ خوراک، صحت اورمختلف ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ انتظامی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا ہے جو بڑے بڑے دبنگ نعرے مارنے والے نہ کر سکے ۔سیوریج ، واٹر سپلائی، سٹریٹ لائٹس حسن ابدال کے قدرتی چشموں کی حفاظت۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت لالہ رُخ پارک کی تعزین و آرائش ،ناجائز تجاوزات کا خاتمہ جیسے اہم مسائل کو انھوںنے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور کم وقت میں شہرکے اہم مسائل کا جائزہ لے کربہترین منتظم کی حیثیت سے فیصلہ کرکے عملی میدان میںاُترآ ئے۔ سیوریج کا نظام اس قدر خراب تھا کہ تاریخی شہر بارش کے دنوں میں ہاکس بے کراچی کی شکل اختیار کر لیتا تھا شہری جب سیاست دانوں، انتظامی اہلکاروںو افسروں سے بات کرتے تھے تووہ مالی مجبوریوں حکومتی عدم دلچسپی سیاستدانوں کی دیگر ترجیحات کا ذکر کرکے اپنی نوکری پکی کرتے تھے۔ حسن ابدال کے عوام کچرے کے ڈھیروں اور بلدیہ کے لاڈلے ملازمین سے انتہائی پریشان تھے ۔کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اسسٹنٹ کمشنر نے حسن ابدال کی سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں کایا پلٹ دی وہ پارک جس کو تنگی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اس کو معصوم، بچوں خواتین کیلئے خوبصورت تفریح گاہ بنادیا اب یہ تنگی نہیں بلکہ حسن ابدال کا کشادہ خوبصورت چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔شہر کے سیوریج کا نظام بہتر بنانے کے لیے سرکاری فنڈز کی ضرورت تھی۔ سابق کمشنر راولپنڈی صاحبزادہ جودت ا یاز کی ذاتی دلچسپی سے شہر کی سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے رقم کی منظوری دی گئی تھی اس منصوبے کی نگرانی بھی موجودہ اسسٹنٹ کمشنرکے ذمہ آگئی۔ دن ہو یارات اسسٹنٹ کمشنر بارہا شہر کی گلیوں متعلقہ اداروں، ٹی ایچ کیو ہسپتال کا چکر لگاتے ہیں بعض اوقات تو وہ نماز فجر سے پہلے سبزی و فروٹ منڈی اور ملازمین کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑا کام ایبٹ آباد موڑ سے جی ٹی روڈ پر خوبصورت لائٹوں اور پودوں کی تنصیب کا کام کیا ہے جسے پنجاب، گلگت، بلتستان، خیبر پختونخوا سے آنے والے لوگ دیکھ کر اس تاریخی شہر اور اس کی خوبصورتی کا ذکر ضرور کیا کریں گے۔ کمال انتظامی صلاحیت یہ ہے کہ انہوں نے 25 لاکھ روپے کی کی کم سے کم عوامی مالی معاونت حاصل کرکے شہر کو ایک نئے خوبصورت موڑ پر لا کھڑا کیا ہے یقینا یہ ان کی کوشش ضلعی انتظامیہ ،عوامی تعاون کے بغیر ناممکن تھی۔ انہوں نے حکومت کے گرین اینڈ کلین پروگرام کے تحت شہر کے ہرگھر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا بہترین پروگرام بھی دے دیا ہے اس سارے خدمت کے کام کے لیے موجودہ کمشنر راولپنڈی محمدمحمود اور ڈپٹی کمشنر عنان علی قمر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بندہ ناچیز کی تجویز پر لالہ رُخ پارک کا اچانک دورہ کیااور اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال کے جاری تعمیری اقدامات کو بے حد سراہا جس سے نہ صرف انتظامیہ بلکہ شہریوں کا حوصلہ بڑھ گیا ہے۔ لوگوں میں احساس ذمہ داری بیدار کرنے کے لئے وہ مقامی افراد کے تعاون سے تمام مسائل کو مرحلہ وار حل کیا جارہے ہے۔شہریوںکی رائے میں یہ کام ناممکن تھا جوراجہ عدنان کیانی نے کر دکھایا ہے۔شہری بہت خوش ہیں۔ لالہ رخ پارک میں رونکیں لگ گئی ہیں حسن ابدال کے باسیوں کی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ موجودہ اسسٹنٹ کمشنر کو حکومتی سطح پرفوری خصوصی گرانٹ دیں تاکہ وہ یہ تمام منصوبے خوش اسلوبی سے مکمل ہوسکیں اسسٹنٹ کمشنر کو بھی چاہیے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے حکام بالا کو مکمل اعتماد میں لیں،اور پنجاب حکومت سے خصوصی گرانٹ طلب کریں۔ اس سارے عمل کی شفاف اور ایماندارانہ طریقے سے تکمیل تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیںعوامی رائے ہے کہاایسے تمام امور کے لیے مقامی ایماندار شخصیات پر مشتمل سب کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔ جو ان تمام امور کی نگرانی میں اسسٹنٹ کمشنر کی معاونت کرئے۔ لیکن امید ہے کہ حکومت کے مثبت فیصلوں سے ایسے افسران اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیں گے۔حسن ابدال کے شہری اس بات کو بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ اگر کوئی انتظامی افسر مصمم ارادہ کر لے تو سب کچھ ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ انتظامی صلاحیتوں کا مالک بھی ہو۔راجہ عدنان کیانی نے شہر کی صفائی کے لیے چار آٹو رکشہ سٹریٹ لائٹس کے لئے نوے کے قریب بلب، لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے لٹریچر، لالہ رُخ پارک میں بچوں کے لیے خوبصورت جھولے ،بجلی سے روشن ہونے والے فانوس ،دیدہ زیب گھڑیال، بلدیہ کے عملے کی نئے عزم سے ذہن سازی جیسے اہم امور سر انجام دیے ہیںسیوریج کے تباہ شدہ نظام کی بہتری کے لیے بنیادی خامیوں کو دور کر کے فعال کر دیا ہے حسن ابدال کے شہری موجودہ اسسٹنٹ کمشنر و منتظم بلدیہ کو اپنا غمگسار اور حسن ابدال کا شہری سمجھنے لگے ہیں۔میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ سیاستدانوں کی طرح ایسے باصلاحیت افسران کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ بھر پور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکے۔راجہ عدنان کیانی کی یہ سوچ بانی پاکستان قائداعظم کے حقیقی تصور اور منشاء کے عین مطابق ہے۔قائداعظم کے افکار کی ایک جھلک اُنہیں اس ایماندار فرض شناس انتظامی اَفسرکی شکل میں دکھائی دی ہے۔ایسے اَفسروں کی خواہش بانیِ پاکستان شدید محسوس کرتے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح نے اپریل 1948 میں پشاور میں سول افسران سے خطاب کے دوران فرمایا "اگر آپ پاکستان کے وقار اور عظمت کو بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ عوام اور ریاست کے خادم کی حیثیت سے نڈر اور ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔اگر آپ اس عزم کے ساتھ خدمت کا آغاز کرتے ہیں توآپ ہمارے تصورات اور ہمارے خوابوں کی مانند ، ایک شاندار ریاست اور دنیا کی عظیم ترین قوموں میں سے ایک قوم بنانے میں اور پاکستان کی تعمیر میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالیں گے"یقینََا راجہ عدنان جیسے آفیسر ملک بھر میں خدمت سر انجام دے رہے ہو ں گے۔لیکن موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہو ا ہے۔عوام توقع کرتے ہیں کہ اس جذبہ خدمت سے سر شارایماندار افسروں کو فیلڈ میں بھر پور طاقت اور حمایت کے ساتھ تعینات کیا جائے اور ان کی بھر پور تشہیر بھی کی جائے تاکہ قوم میں ماضی کی مایوسیوں کو اُمید میں بدلہ جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن