پاکستان کی اقتصادی ،معاشی صورتحال آج اس سطح پر آ گئی کہ بہت سی جگہوں پر ہم مخمصہ کا شکار ہیں
قرض کی پیتے تھے میئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
71 سال میں پاکستانی اقتصادی صورتحال بد تر سے بدترین ہو گئی ،آج بھی اگر بلی کے خوف سے کبوتر کی مانند آنکھیں بند ہیں تو انجام پھر کبوتر والا ہی ہو گا،اگر ڈکٹیشن آئی ایم ایف ’’اینٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ‘‘والی ہیں تو آج نہ صرف پاکستانی ادارے بلکہ 22 کروڑ عوام کا مستقبل ’’گروی‘‘رکھا گیا ہے،اگر صرف ایک نظر سوشل میڈیا پر ماہرین اقتصادیات کا تجزیہ اور تبصرہ سنیں تو یقینا بہت خوفناک صورتحال ہے،اگر غلطیوں کی نشاندہی ہے تو بہتری کے لئے اقدامات بھی ہیں۔پی ٹی آئی حکومت معیشت دانوں کو لائیں گے تو آئی ایم ایف کا دروازہ نہیں کھولیں گے۔آج مہنگائی اپنے انتہائی مقام تک پہنچ گئی ،جہاں روزگاردینا تھا وہاں لاکھوں روزگار ہو گئے،کاروبار ختم ،انوسٹمنٹ نہیں آرہی ہے۔بیرونی سرمایہ کار بھی نہ آئے،ٹیکس دوست پالیسی بھی نہ بن سکی ،اگر صرف اقتصادی ماہرین کی رائے سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کچھ کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کر رہی ہے۔ ماہر
اقتصادیاتڈاکٹر فرخ سلیم پی ٹی آئی حکومت کا حصہ کچھ عرصہ رہے تھے،اگر ان کے خیالات سنیں تو خوف آتا ہے ،پاکستان کی صورتحال کو دیکھ کر آج کی ماڈرن دنیا نہ تو اسلحے کے زور پر فتح ہوتی ہے نہ شکست کا شکار ،مگر اقتصادی بد حالی ملکوں کو تباہ و برباد کرتی ہے۔برصغیر میں اگر ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو انگریز راج آیا جس نے مسلمانوں کا ہزار سالہ اقتدار ختم کیا تو اس کی وجہ کہ مسلمانوں کی عیش و عشرت کی زندگی اور فکر معاش سے بیگانہ ہونا تھا۔کوئی تعمیر و ترقی ،تعلیم ،صحت اقتصادی ترقی کے لئے کچھ نہ کرنا مشرقی پاکستان جو کہ بنگلہ دیش بن گیا۔موجودہ پاکستان سے خوشحال اور ترقی یافتہ ہے ،صرف اگر اس بات کا ہی موازنہ کر لیں کہ ایسا کیوں ہے؟،تو اقتصادی بدحالی کا رونا سمجھ آ جائے گا۔آج ڈاکٹر فرخ سلیم بھی سوال کرتا ہے کہ ہماری معیشت کا مستقبل کیا ہے؟۔بقول ان کے خاموش مالی بحران کھڑا ہے،’’Silent Financial Crisis‘‘ ہماری فنانس منسٹری نے خود تین باتوں کی نشاندہی کی ہے ،پہلی بات کہ ہماری آمدن 3500 ارب کواٹرلی ہے،دوسری بات کہ چاروں صوبے وفاق کو 400 ارب روپیہ دیں گے ،تیسری بات کہ ہمارے سالانہ اخراجات 7000 ارب روپے ہیں،اس طرح وصول کردہ رقم اور اخراجات میں خسارہ تین ہزار ایک سو ارروپے ہیں۔چیئر مین ایف بی آر کہتے ہیں کہ جولائی سے دسمبر تک 2 ہزار
83 ارب وصول کیا ،ٹیکس سالانہ ایف بی آر نے ہدف مقرر کیا تھا 5 ہزار 5 سو روپے جو کہ کم کرکے 5200 ارب سالانہ کیا گیا یعنی کم کیا گیا ۔سالانہ تقریباً ایک ہزار ارب کا شارٹ فال آ رہا ہے۔ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ چار چیزیں ہونے جا رہی ہیں،پہلا منی بجٹ آ رہا ہے،بجلی،گیس مزید مہنگی ہوں گی،بے روزگاری ہو گی ،پاکستانی غربت کی شرح میں مزید نیچے گریں گے،پاکستان اقتصادی صورتحال پر ایک اور ماہری اقتصادی قیصر بنگالی نے بھی بہت خوبصورت تبصرہ اور تجزیہ پیش کیا ، 22 کروڑ عوام میں سے 9 فیصد کو تو شاید معلوم ہی نہیں کہ ہر سال ٹیکس ہدف میں اضافہ کیوں ہوتا ہے اور کس لئے ہوتا ہے؟۔بجلی ،گیس ،صحت،تعلیم مہنگی کیوں ہوتی جا رہی ہیں،روزگار اور کاروبار کے مواقعے کیوں ختم ہو رہے ہیں،پاکستان میں آج تک بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے کوئی اقدامات نہیں ہوئے،صرف نرینہ اولاد کے حصول کے لئے بچے پیدا ہوتے جاتے ہیں،صرف ایک قانون پاس کریں دیں کہ پاکستان میں ہر ایک عدد ملازمت یا پھر کم سود قرضہ اس فیملی کو ملے گا جن کے صرف دو بچے ہوں گے،آبادی کنٹرول ہو جائے گی،یا پھر ٹیکس میں کمی کوئی بھی مرعات کا اعلان حکومت کرے’’بچے دو ہی اچھے ہوں گے‘‘۔ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے بہت خوبصورت بات انداز سے بات کی کہ آج
بھی بد ترین اقتصادی بد حالی کیسے بہتر ہو گی؟،ہمیشہ سے ایک سوچ رہی کہ پاکستان آئی ایم ایف کے متبادل ذرائع پر غور کریں ۔قیصر بنگالی نے کہا کہ 2003 تک ہر 100 ڈالر ایکسپورٹ پر 125 ڈالر امپورٹر کرتے تھے،یعنی کہ 25 فیصد خسارہ تھا،کرنٹ اکائونٹ پر کچھ زرمبادلہ سے فارن ریزروز آتے ،کچھ کیپٹل انکم تھی،تھوڑے بہت قرضے لے کر کام چلتا تھا،اب ہر 100 ڈالر ایکسپورٹ پر 230 ڈالر کی امپورٹ ہوتی ہے یعنی کہ جو صرف 25 فیصد خسارہ تھا اب 125 سے 130فیصد تک بڑھ گیا ہے۔یہ خسارہ نہ تو زرمبادلہ پورا کر سکتا ہے اور نہ ہی کیپٹل انکم سے پورے ہوں گے۔مجبوراً قرضے لیتے ہوں گے اور نئی سے نئی شرائط کے اوپر ہوں گے،انھوں نے کہا کہ میرے گھر کے قریب سپر مارکیٹ میں ڈیپارٹمینٹل سٹور پر ایک سیکشن ہے جہاں کتوں اور بلیوں کے لئے ایمپورٹڈ شیمپو ،پرفیوم اور کھانا آتا ہے جو کہ ایمپورٹڈ ہے،سیب اور چاکلیٹ نیوزی لینڈ اور سوئز لینڈ سے نہ منگوائیں مکمل بین کریں ،ایسی اشیاء صرف 5 فیصد لوگ لیتے ہوں گے 95 فیصد تو صرف ضروریات زندگی لیتے ہیں۔جس ملک میں 30 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں وہاں ایسی عیاشیوں کا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے ،دوسرا انھوں نے کہا کہ 17 فیصد جی ایس ٹی جب انڈسٹری اور کاروباری اداروں پر لگائیں گے وہ کام نہیں کر سکتی ،ا س لئے جی ایس ٹی 5 فیصد پر لائیں تا کہ انڈسٹری لگے،انڈسٹری چلے،روزگار ملے،ایکسپورٹ بھی
ہوں گی،ان چیزوں سے ٹیکس ریوینو کم ہو گا تو اس کو کیسے پورا کرنا ہو گا،ا س لئے اخراجات کم کرنے ہوں گے،غیر ترقیاتی اخراجات ،مانیٹریز میں 42 ڈویژن غیر ضروری اخراجات کا باعث ہیں ج میں کئی انتہائی غیر ضروری ہیں جس طرح ایک ڈویژن National Harmony ،اور اس کے علاوہ National Regulations ،National Heritage ہیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پوسٹ آفس صرف مواصلات کی وزارت کے تحت تھا،صرف ایک عدد وزیر صاحب کو جھنڈا ،گاڑی ،پروٹوکول دینے کے لئے ایک الگ اور خودمختار وزارت بنا دی،شاید ہی کسی پاکستانی کو یاد ہو کہ آخری بار کب خط پوسٹ کیا تھا۔اس میں ایک ڈائریکٹرجنرل اور نوعدد ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں ،ایسی تقریباً 42 ڈویژن اسلام آباد میں ہیں جن کا مقصد صرف سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، دفاع کے حوالے سے بھی قیصر بنگالی صاحب نے کہا کہ ڈیفینس میں دو طرح کے اخراجات ہیں ،ایک Combat اخراجات ہیں اور ایک Non Combat ،انھوں نے کہا کہ میں دفاعی معاملات سے آگاہی نہیں رکھتا اس لئے Combat پر بات نہیں کرتا مگر وہ اخراجات جن کا جنگ اور دفاعی ساز و سامان ،اسلحہ سے ہے اس پر بات نہ کریں۔بلکہ اگر کہا جائے کہ دفاع پاکستان کے لئے پوری قوم قربانی دینے کو تیار ہے،فاقہ کشی کر سکتی ہے،مگر دفاع پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے،دفاع کے لئے ضروری ہے کہ معیشت بہتر ہو ،پاکستان میں ڈیم بنانے چاہئے ،ایٹمی بجلی گھر لائیں ،متبادل ذرائع استعمال کئے جائیں ،سولر سسٹم جدید طرز کے لائیں تا کہ بجلی سستی پڑے ،اس طرح بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں لائیں،1000 سی سی سے اوپر گاڑیوں پر پابندی عائد کریں، پی ٹی آئی کو عوام نے ’’تبدیلی ‘‘کے نام ووٹ دیا،آج عوام آٹا،چینی،بجلی،گیس،مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہے،تعلیم اور صحت کا حصول ایک غریب شخص کے لئے نا ممکن ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے