پرانی بات ہے ایک سید زادہ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوا ، عرض کی، یا حضرت میں غریب سید زادہ ہوں اور سرپر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے، سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا آپ دینی بھائی ہیںاور سید بھی ہیں ، میری کچھ مدد کر دیں۔ آپ نے عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا اور خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز خانقاہ میں آئی؟ خادم نے عرض کی کہ ابھی تک کوئی نہیںآئی لیکن جیسے ہی آئی اطلاع کر دوں گا۔ آپ نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا اللہ پر بھروسہ کریں وہ دستِ غیب سے کوئی انتظام فرما دے گا۔ تین دن گزر گئے کوئی نذر و نیاز نہ آئی۔ سید زادہ بھی مایوس ہو گیا کہ ویسے ہی باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکتی میری، ایک دن واپسی کے لیے اجازت طلب کی تو حضرت محبوب الٰہی کو بہت دکھ ہوا کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے آپ نے اس کو چند پل کے لیے روکا اور اندر سے ا پنے نعلین لا کر دے دئیے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس نہیں دینے کے لیے کچھ، چنانچہ وہ سید زادہ جوتے لے کر چل پڑا اور سوچا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا؟ حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ! دوسری طرف کی سنئے سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آ رہا تھا۔ حضرت امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیاء کے خلیفہ بھی تھے سلطان کے ہمراہ تھے چونکہ آپ ایک قابلِ قدر شاعر تھے اس لیے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے۔ آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل )سکہ رائج الوقت( سے نوازا۔ اپنے واپسی کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا اور رات کو پڑائو کیا گیا تو اچانک اسیر خسرو چلا اٹھے،
مجھے اپنے پیرو مرشد کی خوشبو آتی ہے۔ مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الٰہی تو کیلو کھڑی میں ہیں( جو دہلی سے کافی دور ہے تو) آپ کو ان کی خوشبو کیسے آ گئی؟؟ مگر امیر خسرو بے قرار ہو کر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے جہاں ایک کمرے میں کوئی اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا، خوشبو وہاں سے آ رہی تھی۔ آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا تم حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟ آنکھیں ملتے ہوئے اس نے کہا ہاں آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں؟ میرے مرشد! وہ بولا وہ تو ٹھیک ہیں، میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا، مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے بوسیدہ جوتے ضرور دئیے ہیں۔ یہ سنتے ہی امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاںہیں میرے مرشد کے نعلین؟ اس نے کپڑا کھول کر جوتے دکھائے۔ آپ نے ان کو پکڑا، اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا، اس نے کہا امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو؟ امیر خسرو بولے میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں وہ لے لو مگر نعلین مجھے دے دو مگر چاہو تو میرے ساتھ دہلی چلو اتنے ہی چیتل اور دے دوں گا۔ سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دئیے اور ساتھ میں تحریر اور سپاہی دے دیا تاکہ کوئی اس پر شک نہ کرے۔ پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپٹے سر پر رکھے زار و قطار رو رہے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا، خسرو ہمارے لیے کیا لائے ہو؟ امیر نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں۔ کتنے میں خریدے؟ حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا؟ ساتھ لاکھ چیتل، امیر نے جواباً عرض کی۔ بہت ارزاں لائے ہو، محبوب الٰہی مسکراتے ہوئے بولے،، جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو دے کر یہ حاصل کر لیتا۔ یہ مرشد سے محبت کا کتنا بڑا واقعہ ہے۔ سوچیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہمیں ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ویسی ہی محبت ہو اور ہمیں ان کے نعلین مبارک کی زیارت بھی نصیب ہو!حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ سے کچھ دور ایک مقام پر آباد ہو گئے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں میں سے ایک شخص کو یزید نے کسی غلطی کی سزا دینی چاہی تو وہ جان بچا کر بھاگا۔ پوری سلطنت میں اسے جان بچانے کی کوئی جگہ نہ ملی تو وہ بالآخر اسی گھرانے کے پاس چلا آیا جس گھرانے کے خون سے وہ میدان کربلا میں ہولی کھیل چکا تھا۔ وہ شخص حضرت زین العابدینؓ کے پاس آیا اور پناہ چاہی آپ ؓ نے اسے تین دن اپنے پاس ٹھہرایا۔ خدمت اور تواضع کرتے رہے۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو اسے رختِ سفر بھی دیا۔ یہ حُسنِ سلوک دیکھ کر اس شخص کے باہرجاتے ہوئے قدم رک گئے اسے خیال آیا کہ ’’شاید امام زین العابدینؓ نے اسے پہنچانا نہیں، اگر پہچان لیتے تو شاید یہ سلوک نہ کرتے اور انتقام لیتے‘‘ چنانچہ وہ مڑ کر واپس آیا اور دبے لفظوں میں کہنے لگا کہ ’’اے عالی مقامؓ آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں‘‘ آپؓ نے پوچھا کہ ’’تمہیں یہ گمان کیوں کر گزرا‘‘ اس نے عرض کی ’’جو سلوک آپؓ نے میرے ساتھ کیا ہے کبھی کوئی اپنے دشمنوں اور قاتلوں کے ساتھ نہیں کرتا‘‘ امام زین العابدینؓ مسکرا پڑے اور فرمانے لگے کہ ’’ظالم میں تجھے میدانِ کربلا کی اس گھڑی سے جانتا ہوں جب میرے باپ کی گردن پر تلوار چلا رہا تھا، لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تمہارا کردار تھا اور یہ ہمارا کردار ہے۔‘‘
31 اکتوبر 1929 کو جب غازی علم دین کو پھانسی ہونا تھی اس سے ایک روز قبل میں حسب معمول غازی کی کوٹھڑی کا پہرہ دے رہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے کوٹھڑی سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا، مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ غازی کا
کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے۔ میں یہ سمجھا کہ غازی علم دین نے کمرے کو آگ لگا لی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے جو تیزی سے آسمان کی طرف چلا گیا۔ چنانچہ میں بھاگم بھاگ کوٹھڑی کی طرف بھاگا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوئوں سے معطر اور منور تھا۔ غازی حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا، غازی صاحب یہ کیا ماجرا تھا؟ غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے پھر عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ اہم راز اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں اور اس واقعہ کی تفصیل ضرور بتائیں۔ بہرحال غازیؒ نے بے حد اصرار پر فرمایا۔ عبداللہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کل پھانسی ہو رہی ہے۔ میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے شافع محشر، حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاص صحابہ کرامؓ کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور بڑی محبت و شفقت فرمائی۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں پھانسی کا خوف تو نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا! بالکل نہیں۔ فرمایا بیٹا اگر کوئی خوف ہے تو آئو ہمارے ساتھ چلو۔ میں نے عرض کیا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ پھر پیارے نبیؐ نے میرے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا: پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے۔ تم کہنا کہ میرے ہاتھ کھول دیں۔ میں پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبی پاکؐ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ روزہ رکھ کر آنامیں تمام صحابہ کرامؓ اور فرشتوں کے ہمراہ حوضِ کوثر پر استقبال کروں گا اور ہم سب روزہ افطار کریں گے۔ یہ ہے تحفظِ ناموسِ رسالت کی شان اور اسکی ایک جھلک! جواب شکوہ کا آخری شعر تحفتا پیش خدمت ہے
کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں