جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے۔ ’’NAB‘‘ کا ادارہ پورے ’’جوبن‘‘ پر ہے۔ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی ’’پھرتیاں‘‘ دکھا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہی یہ ’’ادارہ‘‘ ہی وجود میں آیا ہے۔ حالانکہ میں NAB پہلے سے موجود تھا۔ معلوم نہیں تب اس کے مقاصد کیا تھے؟ بہرحال اب ’’Say NO to corruption‘‘ کے ایک طرف راگ الاپے جا رہا ہے دوسری طرف ’’پلی بارگین‘‘ کی سہولت بھی آفر کرتا ہے۔ یہ ریاست کی کتنی بڑی کمزوری کی دلیل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو کوئی بھی جتنی بڑی کرپشن کرے۔ اُس سے ایک ایک پائی وصول کی جائے بے شک چورا ہے میں اُلٹا ہی کیوں نہ لٹکایا جائے۔ سپریم کورٹ نے اب ’’پلی بارگین‘‘ کا بھی نوٹس لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرف کے دور سے یہ ادارہ قائم تھا۔ حالیہ ’’پھرتی‘‘ کے ساتھ پہلے یہ کام کیوں نہیں کر رہا تھا؟ اگر آغاز سے ہی NAB کا کام ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ جاری ہوتا تو شاید آج کرپشن میں کمی ہوتی۔ کیا NAB کے پہلے چیئرمین صاحبان و دیگر ملازمین مفت کی تنخواہیں وصول کرتے رہتے تھے؟ یا NAB پہلے کسی کے دباؤ میں تھا؟ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ NAB نے سابق دور میں ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت کو ایک بار ہلکی سی جنبش دی تھی تو اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف صاحب غصے میں آگئے تھے۔ اور بہاولپور میں ایک جلسے میں خطاب کے دوران نوازشریف صاحب نے NAB کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اسے دھمکیاں بھی دیں اور ’’خادم اعلیٰ‘‘ نے بھی اُس وقت ’’NAB‘‘ کی خوب درگت بنائی پھر اس ادارہ کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ قانون کو ’’اندھا‘‘ کہا جاتا رہا مگر اب ثابت ہوا کہ ہمارا قانون اندھا نہیں بلکہ اس کی چار آنکھیں ہیں۔ قانون کو علم ہے کسی کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟ عام شہری کرپشن یا جرم کرے تو اسے پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پولیس چند گھنٹوں میں اپنے حصے کے ساتھ سب کچھ وصول کر لیتی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے۔ ’’اشرافیہ‘‘ اربوں کھربوں کی کرپشن کریں تو ان کی لیے جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ بس یہ ڈرامہ چلتا ہی رہتا ہے اور بجائے کچھ وصول کرنے کے قومی خزانے کا ایسے بھی ضیاع ہوتا رہتا ہے۔ مشرف کے مقدمے پر کتنا خرچہ ہوا‘ حاصل کیا ہوا۔ عدالتیں اگر فیصلے کرتی ہیں تو انہیں اپنے فیصلوں پر عمل بھی کرانا چاہئے۔ جس سیاستدان کو پکڑو‘ ساتھ ہی اسکے اندر سے ہزاروں بیماریاں ’’نمودار‘‘ ہو جاتی ہیں۔ پہلے وہ ہشاش بشاش‘ صحت مندانہ حالت میں قومی خزانے کو لوٹتا ہے‘ جونہی پکڑا جاتا ہے اللہ معاف کرے پھر چھوٹی موٹی بیماریاں بھی نہیں‘ ’’دل‘‘ کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے نوازشریف صاحب جب جیل میں تھے‘ تمام چینلز پر ان کی کئی ’’بیماریاں‘‘ دیکھنے کو ملتیں۔ سپریم کورٹ سے علاج کیلئے ریلیف بھی ملتا رہا مگر اندر کھاتے مقصد بیرون ملک فرار ہونا تھا۔ جب دیکھا صورتحال نہیں بن رہی‘ اللہ معاف کرے فوراً پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہو گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق بس اتنے ہزار اور گر گئے تو بچنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک ہلچل سی مچ گئی۔ جونہی بیرون ملک ’’فرار‘‘ کی اجازت ملی سب کچھ ’’نارمل‘‘ ہو گیا۔ گرنا گرانا سب کچھ بند ہو گیا۔ جب ’’صاحب‘‘ یہاں تھے چینلز ان کی ’’بیماریوں‘‘ کے علاوہ کچھ دکھاتے ہی نہیں تھے۔ اب اپنی ’’منزل‘‘ پر پہنچ گئے۔ کبھی کسی بیماری کا تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ ہمیں مریم نواز کے ساتھ پوری ہمدردی ہے‘ یقین کریں اگر لندن کا کر بھی نوازشریف صاحب کے ’’پلیٹ لیٹس‘‘ گرنے کی خبریں جاری رہیں تو مریم نواز کو باپ کے پاس جانے کی اجازت بھی عدالتوں سے مل ہی جاتی۔ ایک بار حمزہ شہباز کو اتوار کے دن ضمانت مل گئی تھی۔ خورشید شاہ جوکہ ’’جوان‘‘ تھے NAB کے پاس آتے ہی ’’بیماریوں‘‘ کی زد میں آگئے۔ آصف زرداری‘ فریال تالپور‘ سعد رفیق وغیرہ "NAB" کے پاس آتے ہی ’’بیماریوں‘‘ کی زد میں آگئے۔ آصف زرداری‘ فریال تالپور‘ سعد رفیق وغیرہ ان سب سے "NAB" نے کیا وصول کی۔ یہ تو قوم کے سامنے آنا چاہئے۔ اگر آپ ’’اشرافیہ‘‘ سے کچھ وصول نہیں کر سکتے تو الٹا انہیں گرفتار کر کے پھر عدالتوں میں ان کی پیشیوں پر قومی خزانے کا ضیاع کیوں کیا جاتا ہے۔ ’’اشرافیہ‘‘ کو کھلی معافی دیدیں۔ ڈاکٹروںکی ’’ہمدردیاں‘‘ بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یہ مان لیا جائے کہ قانون غریبوں کیلئے ہے ’’اشرافیہ‘‘ اس کی زد میں نہیںآتے۔ ہمارے خیال میں NAB والے اپنے ہر آفس کے ساتھ ایک دل کا ہسپتال بھی بنا لیں جن میں چند ایسے ہی ’’اشرافیہ‘‘ کے ’’ہمدرد‘‘ ڈاکٹر بٹھا لئے جائیں کیونکہ ویسے تو ان سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا۔ ہسپتال میں ان کے علاج معالجے سے ہی کچھ آمدن حاصل ہوتی رہے گی۔ بہرحال کسی بھی ادارے کو حکومت وقت کے دبائو میں نہیں بلکہ ’’آزادانہ‘‘ کام کرنا چاہئے۔ ملکی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔