وزیراعظم عمران خان سچی اور کھری ڈگر پر!

Feb 22, 2020

خالد کاشمیری

اسے پاکستان اور اسکے عوام کی خوش قسمتی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ کئی عشروں کے بعد ارض وطن کو ایک ایسا چیف ایگزیکٹو نصیب ہوا ہے جس نے مسندِ اقتدار پر براجمان ہو کر عوام کی مشکلات و پریشانیوں کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کوتاہی کو کھلے لفظوں میں تسلیم کیا ہے اور لگے لپٹی بغیر کہا ہے کہ آٹا اور چینی مہنگا ہونے میں حکومت سے کوتاہی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بعید از حقیقت نہیں ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت کچھ ٹیلی ویژن چینلز ’’ہمارے‘‘ خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دل کی باتیں وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں لاہور میں صحت کارڈ تقسیم کی تقریب میں اپنے خطاب میں کیں۔ ان کے نکتہ چینی حضرات خواہ کچھ بھی کہیں۔ ان پر جذبہ مخاصمت کی آڑ میں تضحیک و تنقید کے کتنے ہی تیروں کی بارش کریں۔ مگر اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ وزیراعظم کو مہنگائی کے عذاب میں عوام کو مبتلا کرنیوالے مافیا کا پوری طرح احساس ہے۔ انہیں طرز حکومت کے رول ماڈل ، ’’ریاست مدینہ‘‘ ایسے حق و انصاف پر مبنی معاشرے کے احیاء اور بقاء کی جدوجہد کی راہ میں روڑے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے والے سیاسی مخالفین کی ایسی سازشوں کا بھی یقیناً احساس ہے جو ملک میں ضروریات زندگی کی طلب و رسد کے نظام کو ناکام بنانے کی خاطر آٹا چینی کی مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے مخصوص عناصر سے عبارت ’’مافیا‘‘ سے تعاون کرتے ہیں، اسی قسم کی صورت حال کا ذکر انہوں نے برملا طور پر اپنے خطاب میں کر کے جہاں انہوں نے یہ کہا کہ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کو ’’ایشین ٹائیگر‘‘ بنا دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مطمع نظر ملک کو ایسے فلاحی نظام سے ہمکنار کرنا اور عدل و انصاف پر مبنی ایسے معاشرے کی نیواٹھانا ہے جس کے ڈانڈے ریاست مدینہ سے ملتے ہوں۔ تاریخ اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ ریاست مدینہ کوئی ایک دم ایسے معاشرے اور ایسے فلاحی نظام سے ہمکنار نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کی اس رول ماڈل ریاست مدینہ کی راہ میں بھی ان گنت نامساعد حالات آئے تھے۔ جس سے ریاست مدینہ کو بھی نمٹنا پڑا تھا۔ پھر اسی ریاست مدینہ کے فرمانروائوں نے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں ۔ جس نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں کے تحت عظیم فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کر رکھا ہے اور اس پر پوری طرح کاربند ہیں‘ اس حوالے سے ان کا یہ کہنا درحقیقت کرہ ارض کی تمام مسلمان مملکتوں اور ان کے سربراہوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس وقت برطانیہ کی ریاست ایک فلاحی ریاست ہے۔ جہاں تدریسی اور طبی سہولتیں شہریوں کو حاصل ہیں۔ انہوں نے بڑے خوبصورت پیرائے میں ریاست مدینہ کے اصولوں پر قائم مملکت کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے فلاحی پروگرام کو برپا کرنے کے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلاحی ریاست میں انسانیت کا تحفظ شہریوں کے حقوق کی پوری طرح نگہداشت اور کمزور اور محروم طبقے کو زندگی کی تمام تر سہولتوں کی فراہمی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت کی طرف سے مفاد عامہ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کو کسی دلیل اور حقائق کی چھان بین کے بغیر ہدف تنقید بنانے کی مشق جاری رہتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ کام ملک کی سیاسی تاریخ اور اپنی اخلاقی اقدار کے قطعی طورپر نابلد الیکٹرانک میڈیا میں گھسے عناصر ہیں جن کا برملا اظہار ملک کے چیف ایگزیکٹو نے اپنی زبان سے کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حرص و ہوس اور طمع و لالچ سے پاک ہی کوئی شخصیت ایسی کھری حقیقتوں کو زبان پر لانے کی جرأت کر سکتی ہے اور اسی طرح کے حقائق کسی مقتدر شخصیت کی زبان سے ادا ہونے پر عام آدمی کو بھی اپنی پریشانیوں کی وجہ سمجھتے میں مدد ملتی ہے اور ان کی مشکلات کے حوالے سے جو لغو قسم کا پراپیگنڈا مخصوص عناصر کی طرف سے کیا جا رہا ہو، اس کے نتیجے میں معاشرے میں مایوسی کی فضا کو چھٹنے میں مدد ملتی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے دوران سرکاری ہسپتالوں کو نجی ملکیت میں دینے کے مذموم پراپیگنڈا کی بھی تردید کی اور ان کی اس تردید سے یہ بات واضح ہوئی کہ سرکاری ہسپتالوں کو نجی ملکیت میں نہیں بلکہ ان میں نادار اور مستحق غریب مریضوں کو بروقت علاج معالجے کی سہولتوں میں غفلت برتنے اور ضروری ادویات کی عدم فراہمی پر احتساب کی خاطر خودمختار نظام کا قیام ضروری سمجھا گیا ہے۔ انکی یہ سوچ سہولت کارڈ کے تحت علاج معالجہ کرانے والوں کیلئے انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ غیر سرکاری ہسپتالوں میں بھی متذکرہ کارڈوں کے تحت علاج معالجہ کی سہولتیں حاصل ہونگی۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ اس طرح کے حکومتی اقدامات بلاشبہ ملک کو ایک حقیقی فلاحی ریاست کے قیام کی طرف مثبت اقدام کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ایسے تمام فیصلوں پر پوری طرح عملدرآمد کرانے کے مؤثر اقدامات ہوں۔ جہاں تک ملک میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کا تعلق ہے‘ اس کیلئے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہر شہری میں عدم تحفظ کے احساسات کے خاتمے کے ایسے اقدامات ہوں کہ امن و امان کے تحفظ کے ذمہ دار اداروں بالخصوص پولیس کی روایتی دہشت اور وحشت کا خاتمہ ہو۔ ان کے دفاتر کو عوام کے باہمی معاملات پر ڈرانے‘ دھمکانے اور دہشت زدہ کرنے کی بجائے مصالحانہ رویوں سے الجھے معاملات کو سلجھانے کیلئے تبدیل کر دیا جائے۔

مزیدخبریں