اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے۔ انتوینو گو تریس کے دورے سے یقینا پوری دنیا کو وطن عزیز کے حوالے سے مثبت پیغام ملا ہے اور ہم پردہشت گرد کا لگا ہو الیبل اتارنے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا ۔ کیا ہماری حکومت نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا؟اور کشمیر ایشو کو مثبت انداز میں اٹھایا؟ہرگز نہیں بلکہ سیکرٹری جنرل کے پروگراموں سے لگ رہا تھا کہ سوائے سیر سپاٹے کے کچھ نہیں تھا۔کشمیریوں اور ان پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر گفت و شنید رسمی بات چیت سے آگے نہ بٖڑھ سکی ۔ دفتر خارجہ کو چاہیے تھا کہ انکے آنے سے قبل کوئی فارمولہ تیار کیا جاتا۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ موجودہ روز بروز بگڑتی ہوئی خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے ہم کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑ سکیں وگرنہ پاکستان دشمن اور عالمی طاغوتی طاقتیں اس وقت مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مسلسل سرگرم ہیں ۔ کرتاپور جانے کے ساتھ ساتھ سیکرٹری جنرل ایل اوسی پر بھارتی فوج کی جارحیت کا مشاہدہ بھی کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ مظفر آباد ا ٓزاد کشمیر بھی جاتے یہاں پر یواین او کا دفتر بھی ہے۔ وہ یہ کیوں بھول گئے کہ کشمیر اقوام متحدہ کا سب سے دیرینہ مسئلہ ہے اور 72سالوں سے عالمی ادارے کی نا انصافی کا شکار ہے ۔ حالا نکہ کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کی اپنی دو رپورٹیں اور ہیومن رائٹس کمشن کی بھی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت و درندگی کا یہ عالم ہے کہ وہاں پر کرفیو لگے چھ ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے ۔ جو اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی قردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ پوری وادی بین الاقوامی رابطوں سے منقطع ہے۔ چھ سال سے لے کر ساٹھ سال تک اٹھارہ ہزار انسانوں کو جیلوں میں بند کر کے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے جا رہے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھارت نے گزشتہ چھ ماہ میں 101آزاد کشمیر کے شہریوں اور فوجی جوانوں اور افسروں کو شہید کر دیا ہے ۔ آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیر کے بارڈر پر فوجی مبصرین کی تعیناتی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے تا کہ بھارت کی بلا اشتعال کارروائیوں پر نظر رکھی جا سکتی ۔ وزارت خارجہ کی کمزوریاں پوری طرح واضح ہو گئیں ۔حالیہ دورے میں ہماری حکومتی توجہ کا مرکز صرف افغانستان رہا اوریہ بہت اچھی بات ہے کہ انہوں نے ہماری قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے تعریف کی لیکن موجودہ حالات کا تقاضاہے کہ ہمیں اس نقصان کی تلافی کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ ہرجانہ ادا کیا جاتا جو ہمارا حق بنتا ہے ۔دیکھا جائے تو اس دورے کا اصل مقصد افغانستان سے امریکی واپسی کی راہ ہموار کرنا تھاکیونکہ اس وقت امریکہ بری طرح افغانستان میں پھنس چکا ہے اور وہ طالبان سے باعزت طور پر انخلاء کا خواہاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات بھی متعدد بار کئے جا چکے ہیں۔یہ وہی طالبان ہیں جن کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا اور ان کیخلاف نا م نہاد جنگ چھیڑ دی گئی تھی جس کا خمیازہ جانی و مالی نقصان کی صورت میں پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑا ۔جبکہ امریکی قانون کے مطابق دہشت گردوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے اور آج امریکہ انہی دہشت گردوں سے افغان سر زمین سے بحفاظت واپسی کے لئے بھیک مانگ رہا ہے ۔
اقوام متحدہ کا قیام بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب ہر قوم و ملک کے تحفظ و اس کے حقوق کی پاسداری کے لئے عمل میں لایا گیا تھا ۔ لیکن 75 سالوں میں طاغوتی طاقتوں کا ساتھ دیا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ دراصل امریکہ کی باندی بن چکا ہے اور اس کا ہر فیصلہ اسرائیلی و امریکی مفادات کے تابع ہوتا ہے ۔ مشرقی تیمور کو راتوں رات ا ٓزادی دلائی جا سکتی ہے ۔ سوڈان میں ایک الگ عیسائی ریاست کا وجود عمل میں لاہا جا سکتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ کشمیر و فلسطین کو آزاد کروانے کی بات آئے تو ایکشن کے بجائے صرف قراردادوں پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بولنے والی برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہم کو بھارت سے ڈی پورٹ کئے جانے پر بھی اقوام متحدہ کی مسلسل خاموشی معنی خیز ہے ۔
فلسطین پر امریکی و صہیونی طاقتوں کی ڈیل آف سنچری در حقیقت میں ڈیتھ آف سنچری ہے اس میں انصاف کے تمام اصولوں اور تقاضوں کو ہی کچل ڈالا اور یہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔اس خطے میں امریکی مذموم خواہشات کی تکمیل کے لئے گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ امریکی و اسرائیلی آشیرواد پر ہی بھارت اوچھے ہتکھنڈوں پر اتر آیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورے پر تھے اور ادھر بھارت کی اقوام متحدہ کی قرادادوں کو ہی مسترد کر دیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک اعلان لاہور سمیت دیگر معاہدوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان سے جان ہی نہیں چھڑانا چاہتے۔ دوسری جانب ہمارے ازلی دشمن بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں حیوانیت و درندگی عروج پر ہے ۔بپن راوت کے لئے نئے عہدے کی تشکیل سے ہی نریندر مودی کے خطرناک عزائم عیاں ہو جاتے ہیں ۔ لداخ و جموں کو کشمیر سے کاٹ کر علیحدہ ٹیریٹری بنانا تشویش ناک ہے اور یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ کہیں مقبوضہ کشمیر کو آزاد ریاست ڈکلئیر کرکے وہاں امریکہ کو نہ بٹھا دیا جائے۔ہمیںگزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ لالی پاپ دیا جا رہا ہے کہ گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا تاحال ایسا نہ ہو سکا۔ایلس ویلز نے بھی بیان دیا تھا کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جا رہا تھا لیکن امریکی کاوشوں سے گرے لسٹ میں رکھا گیا، یہ بھی ہم پر احسان ہے ۔ ہم نیوکلئیر پاور ہیں ہمیں کوئی ایسے ہی بلیک لسٹ نہیں کر سکتا یہ ہمیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
یو این سیکرٹری جنرل کا دورہ اور کشمیر ایشو
Feb 22, 2020