آج جمادی الثانی کی چھبیس تاریخ ہے یعنی رجب اور شعبان کے بعد ماہ مبارک کا آغاز ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اس رحمتوں اور برکتوں والے مہینے کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ماہ مقدس میں کے لمحات کسی بھی مسلمان کے لیے بخشش، مغفرت، مشکلات میں کمی اور آسانیوں کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ مساجد کی رونق بڑھتی ہے، رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں مسلمان اس اہم مہینے کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی رمضان المبارک میں مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارا مذہبی جذبہ بہت ہی شاندار ہے۔ پاکستان کے مسلمان بہت ذوق و شوق سے رمضان المبارک سحری و افطاری کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اس دوران ہمارا مذہبی جوش و جذبہ قابل دید ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم سارا سال نیکی کرنے کے اعتبار سے رمضان المبارک والے جوش و خروش کو برقرار رکھ پائیں۔
جب ہم رمضان المبارک کی بات کرتے ہیں تو اس دوران اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر بلاتعطل فراہمی سب سے بڑا مسئلہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف نیکیوں کا دور ہوتا ہے تو دوسری طرف ناجائز منافع خور بھی متحرک ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بدانتظامی کی وجہ سے بھی بے پناہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے ہم آج تک اچھا پرائس میکنزم ہی نہیں بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سارا سال رہنے والی مہنگائی رمضان المبارک میں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ سبزیاں، پھل اور دیگر اشیاء کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ کئی چیزیں حکومت کو باہر سے منگوانا پڑتی ہیں اگر مناسب وقت پر اس حوالے سے بھی منصوبہ بندی نہ کی جائے تو سارا بوجھ عوام پر آتا ہے اور وہ ایسی چیزیں جو سحری یا افطاری کے موقع پر ہر دستر خوان کی ضرورت ہوتی ہیں ان کی عدم دستیابی یا مہنگا ہونے سے بے چینی پھیلتی اور عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ گذشتہ رمضان المبارک میں لیموں نایاب ہو گیا تھا اور جہاں دستیاب تھا وہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا۔ رمضان المبارک چونکہ گرمیوں میں ہے اس لیے لیموں کا استعمال بڑھ جاتا ہے جب استعمال بڑھے گا تو اس کی موجودگی نہایت ضروری ہے۔ حکومت کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت سے پہلے حکمت عملی بنائے، منصوبہ بندی کرے تاکہ عوام کو پریشانی سے بچایا جا سکے۔ رمضان المبارک کے دوران تو ایسے کام نیکی کرنے کی نیت سے بھی کئے جا سکتے ہیں۔ گوکہ حکومت میں شامل افراد کا یہ فرض ہے لیکن وہ اسے نیکی سمجھ کر شروع کریں تو آسانیاں بھی پیدا ہوں گی اور عوامی سطح پر مسائل میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح کھانے پینے کی دیگر چیزوں پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ماہ رمضان کی آمد کے پیش نظر حکومت کو ابھی سے اس کی منصوبہ بندی شروع کر دینی چاہیے۔
یہ ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس وقت مہنگائی کو قابو کرنا حکومت کے بس سے باہر نظر آتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر بھی اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں آٹے اور چینی کے بحران پر جو ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک حکومت اصل مسائل کی نشاندہی میں ہی ناکام رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس اہم مسئلے کا کوئی موثر اور پائیدار حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہی صورت حال برقرار رہی اور انہی حالات کے ساتھ ہم رمضان المبارک میں داخل ہوئے تو عوام کی بچی کھچی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔ ماہ مبارک میں سحر و افطار بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ حکومت جاگ جائے اور آنے والے حالات کو ابھی سے سمجھ کر آگے بڑھے ورنہ حالات آٹا اور چینی بحران سے بھی بدتر ہوں گے۔ ہر بحران کو اپوزیشن کی سازش یا گٹھ جوڑ کہہ کر مسائل پر مٹی نہیں ڈالی جا سکتی حکومت کا کام ہی سازشوں کا توڑ کرنا ہے، حکومت کا کام ہی ناجائز منافع خوروں کو قابو کرنا ہے۔ وہ حکومتی وزراء جو اس معاملے پر اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتے ہیں ان کے لئے بہتر ہے کہ اس وقت میں اپنے ساتھیوں کو مشورے اور کام کرنے کی ترغیب دیں دوبارہ اپوزیشن کو ہدف تنقید بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
ایک اور بہت تکلیف دہ خبر نظر سے گذری ہے۔ مرحوم نعیم الحق شدید بیمار تھے اور معمول کی زندگی سے الگ ہو چکے تھے لیکن انکی دیکھ بھال کے بجائے ان کے اردگرد موجود سیاسی افراد کو نعیم الحق کی صحت اور زندگی کے بجائے انکے بنگلے پر قبضے کی فکر پڑ گئی۔ وہ کہ جنہوں نے نعیم الحق کو بیماری اور مشکل وقت میں سنبھالنا چاہیے تھا وہ ان کے بنگلے پر قبضے کی سیاست میں مصروف ہو گئے۔ یعنی سیاسی ساتھیوں میں نعیم الحق کی زندگی میں ہی انکے انتقال کے بعد کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ ان کے ساتھ آخری دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ہماری اخلاقی موت سے کم نہیں ہے۔ جس انداز سے انہیں اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا اس پر تو نوحہ لکھا جا سکتا ہے۔ حکمراں جماعت کے ایک مخلص اور وزیر اعظم کے انتہائی قریبی اور وفادار ساتھی کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں ایسی سازشیں کی جا سکتی ہیں تو کون اس گندے کھیل سے بچ سکتا ہے۔ نعیم الحق کی بیماری کے دوران ان کی جماعت کے دو افراد نے ان کی رہائش گاہ اور ان کی سیٹ پر قبضہ کرنے کے کا کھیل اتنے بے رحم انداز میں کھیلا گیا ہے کہ گھن آنے لگتی ہے۔ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہمارے لیے برسوں کی رفاقت، دوستی، تعلق اور خدمات پلک جھپکنے میں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ ان دو بے رحم انسانوں کو نعیم الحق کا بنگلہ اور انکا عہدہ ملتا ہے یا نہیں لیکن اس واقعے نے حکمران طبقے کی سوچ، حقیقت اور مفاد پرستی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قوم کی رہنمائی کرنی ہے، جنہوں نے قوم کے مستقبل کے فیصلے کرنے وہ اتنے خود غرض لوگ جب اوپر آئیں گے تو وہ کیا تربیت کریں گے اور کیا رہنمائی کریں گے۔ بہرحال دکھ ہے کہ عنران خان کے ایک وفادار ساتھی کو آخری دنوں میں ایوان اقتدار کے عارضی مکینوں نے تکلیف دی ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ہم جس راستے پر چل رہے ہیں یہ کسی بھی صورت بہتری، بھلائی اور فلاح کا راستہ نہیں ہے۔