کراچی (وقائع نگار) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر چھ ماہ میں سرکلر ریلوے نہیں چلی تو وزیر اعظم، وزیر اعلی سندھ، سیکرٹری ریلوے سمیت سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔ ریلوے حکام نے کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق پیش رفت رپورٹ اور اس کا نقشہ پیش کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سرکلر ریلوے پر بہت پیش رفت ہوئی ہے، سرکلر ریلوے کے تمام سٹیشنوں کو بستیوں سے منسلک کر دیا جائے گا۔ عدالت نے سرکلر ریلوے منصوبے پر فوری کام شروع کرنے اور تمام کارروائی پانچ ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے چین سے مشاورت کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دے دی۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ آپ کی ہدایت پر روزانہ کی بنیاد پر کام شروع کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کیا کر رہے تھے، چاہیں تو آپ کو ابھی جیل بھیج دیں، کیا افسری کر رہے ہیں، یہ وژن ہے آپ کا، آپ اہل ہی نہیں، ہمیں معلوم ہے نہیں چلائیں گے آپ سرکلر ریلوے، 24 گیٹ پر قبضے کا بتایا جا رہا ہے بہانے بنائے جا رہے ہیں، 24 گیٹ کے بعد نیا بہانہ آجائے گا، جب یہ قبضے ہو رہے تھے تو کیا کر رہے تھے، اگلی سماعت پر آپ نیا نقشہ لے آئیں گے۔ سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ہم سرکلر ریلوے چلا دیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں کی طرح کام چل رہے ہیں، اپنے کمروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں، نہیں کریں گے، روزانہ نئے بہانے لے آتے ہیں، کراچی کی حیثیت کا بھی آپ کو معلوم نہیں، آپ کو کراچی کے لوگوں کی پریشانیوں کا اندازہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سو رہی ہے، کوئی سوچنے والا نہیں، سب تھوڑے تھوڑے دنوں میں موقف بدل کر آجاتے ہیں، زمین پر تو جگہ ہی نہیں بچی۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ہمارے پاس تو کوئی الہ دین کا چراغ نہیں۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی عدالت میں پیش ہوئے اور سرکلر ریلوے کی بحالی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران گھروں کو گرانے کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس نے ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فردوس شمیم نقوی صاحب، آپ حکومت کے نمائندے ہیں اور یہاں کیسی باتیں کر رہے ہیں، پھر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا، اگر سرکلر ریلوے 6 ماہ میں نہیں چلائی تو وزیراعظم، وزیراعلی کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجیں گے، سمجھ لیں، وزیراعظم اور وزیراعلی دونوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، ہم وزیر اعظم کوہی بلا لیتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں سرکلر ریلوے چلائیں گے یا نہیں؟۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ کی حکومت کر ہی یہ رہی ہے، آپ کی حکومت کا ہر جگہ یہی حال ہوچکا، عدالت میں کچھ باہر کچھ ، ہم اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ حکومتی نمائندہ یہاں اپنی حکومت کے خلاف کھڑا ہے، بیوروکریٹس سے حکومت کی بن نہیں رہی اور حکومتی نمائندہ یہاں خود حکومت کے خلاف کھڑا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان قبضوں میں پولیس، ریلوے، حکومت، اداروں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ایک قبضہ خالی کرانے جائیں گے تو وزیراعلی کی 10 سفارش آجائیں گی، پی ٹی آئی والے یہاں کھڑے ہیں، باقی بھی آجائیں گے، آپ چاہتے ہیں کراچی جیسا ہے ویسے ہی رکھا جائے، غیر قانونی زمین خریدنے والوں کو بھی زمین خریدنے سے قبل سوچنا چاہیے، 5 لاکھ کی چیز 25 ہزار میں ملتی ہے تو کوئی وجہ ہوتی ہے، ایک کروڑ کی زمین 20 لاکھ میں لیتے ہوئے کیوں نہیں سوچتے، اب تو وقت گزر گیا، یہ سارے قبضے ختم ہوں گے، جس نے غیر قانونی زمین لی اسے خالی کرانا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اورنج لائن میں بھی یہی دیکھا سبسڈی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا ؟، قائد اعظم بھی سوچ رہے ہوں گے ملک میں کیا ہورہا ہے ، جتنے اسٹیٹ ایجنٹس ہیں سب ملے ہوئے ہیں، ریلوے اور صوبائی حکومت والے بھی ملے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ سرکلر ریلوے ڈبل ٹریک پر فوری کام شروع کیا جائے، سندھ حکومت ریلوے کو مکمل سہولیات فراہم کرے، منصوبے کی منظوری اور دیگر امور کو فوری حل کیا جائے، سیکرٹری ریلوے بھی سندھ حکومت سے تعاون کریں۔