اسلام آباد ( محمد نواز رضا ۔ وقائع نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں’’اکنامک ٹیررزم‘‘ کی شق شامل کرنے کے خلاف قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں ترامیم جمع کرا دی ہیں ان ترامیم پر شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ، احسن اقبال خواجہ آصف اور شاہنواز رانجھا نے دستخط کئے ہیں اس بات کا انکشاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما قومی اسمبلی کے رکن محسن شاہنواز رانجھا نے جمعہ پارلیمنٹ ہائوس میں نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ یہ نیب 2 ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ اس کے بعد پاکستان میں بھی گوانتاناموبے جیسی کوئی جیل بنے گی، جس میں اس قانون کا غلط استعمال کر کے بھرا جائے گا اس قانون کو من و عن تسلیم نہیں کریں گے ۔ ہمارا موقف ہے کہ مالی معاملات سے متعلق اگر کوئی بین الاقوامی ذمے داری ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس حوالے سے بین الاقوامی معاملات تو 2001ء سے شروع ہوئے تھے۔ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ ایف اے ٹی ایف کی کمپلائنس ہونی چاہیے تھی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسرا بل’’ ہنڈی اور حوالے ‘‘کے بارے میں ہے۔ اس کے لئے انہوں نے معاشی دہشت گردی کی اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ اکنامک ٹیرر ازم کی یہ تعریف پوری دنیا میں نہیں ہے۔ اس کا اصل مطلب ہے کہ آپ پیسہ اس طرح سے استعمال کریں جو ریاست میں کسی گروہ یا کمیونٹی کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی کرے۔ اگر کوئی شخص پانچ کروڑ روپے غیر قانونی طریقے سے باہر بجھوائے اس کے ساتھ ایک دہشت گرد کا سا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ پاکستان کے آرٹیکل 10 اور 10 اے سے متصادم ہے۔سابق چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے دہشت گردی کی جو تعریف کی تھی یہ اس سے بھی مخالف قانون ہے۔ حکومت کو ایسی قانون سازی نہیں کرنی چاہیے جس سے کاروباری طبقہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔ اس قانون کا غلط فائدہ اٹھایا جائے گا اور اس کی بنیاد پر ایف آئی اے میں کرپشن بڑھے گی۔ اس کی بنیاد پر مستقبل میں سیاسی جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا اور صرف شبہ کی بنیاد پر سیاستدانوں کو حوالات میں بند کیا جائے گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کو’’ بنانا ریپلک ‘‘بنایا جا رہا ہے۔ ہم حکومت کے اس طر عمل کی مخالفت کریں گے جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خاموش ہے، اس کی خاموشی کی کیا وجوہات ہیں؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ہماری خاموشی کے بارے میں آپ کا سوال ہے نہیں ایک وار ہے ۔پوری مسلم لیگ ن کو بطور جماعت خاموش کہنا درست نہیں کیوں کہ آپ ہماری کارکردگی کو اس ایوان میں دیکھ لیں تو جو عوامی مسائل پرپارلیمنٹ میں کارروائی ہو رہی ہے اس میں ہماری جماعت سب سے آگے ہے اور بڑھ چڑھ کر دلچسپی بھی لے رہی ہے۔ قانونی معاملات ہوںیاعوام کے مسائل ہوں، ہر ایشو کے اوپر ہماری جماعت نے قرارداد جمع کروائی ہے ، پارلیمنٹ کے باہربھی کھڑے ہو کر اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا ہے۔ خاموشی کہیں سے بھی نہیں نظر آ رہی۔ہماری خاموشی کو آپ ایک دوسرے رخ سے دیکھیں تو نوازشریف علیل ہیں ۔ اللہ تعالی انہیں صحت عطا فرمائے۔شہباز شریف بھی ان کی صحت کی وجہ سے بیرون ملک ہیں۔ جس کرب سے اور آزمائش سے پورا خاندان گزر رہا ہے اس کے لئے خاموشی کا لفظ اچھا نہیں لگتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی آج بھی اڈیالہجیل کی کال کوٹھری میں بند ہیں۔ احسن اقبال اڈیالہ جیل میں قید کاٹ رہے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق لاہور کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل ہیں۔حمزہ شہباز بھی جیل میں ہیں۔ اگر ہم خاموش ہوتے اور ضمیر کی آواز نہ اٹھاتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ جہاں تک حکومت کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ ایک انتہا پسند سیاسی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق نہیںہے۔ ہمیں عوام نے ووٹ دئیے ہیں اگر ہم اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہمارے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کر دئیے جاتے ہیں ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ موجودہ حکومت کا مستقبل کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مستقبل تاریک ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہو رہی۔ ایک کسان کی بوائی پر فی ایکڑ لاگت پندرہ ہزار بڑھی ہے۔ زراعت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ غریب مزدور کو مزدوری نہیں مل رہی اور کارروبار بند پڑے ہیں۔ شرح سود آسمان کو چھو رہی ہے۔نئے کارخانے لگ رہے ہیں اور نہ ہی برآمات بڑھ رہی ہیں۔ اس حکومت کی وجہ سے پاکستان کے عوام کرب میں مبتلا ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مارچ میں ان ہائوس تبدیلی کی بات کی جارہی ہے، کیا ایسا ممکن ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی ہو آئین اور قانون کے مطابق ہو۔ جس طرح سے حکومت کے حمایتوں کا بھی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے یہ دلچسپ ہے اور آنے والے وقت میں دیکھا جائے تو الیکٹ ایبل موسم دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ میاں شہباز شریف جلد آئیں گے اور جیسے ہی میاں نوازشریف کا دل کا علاج مکمل ہوتا ہے وہ جلد لوٹ آئیں گے۔مولانا فضل الرحمنٰ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں اور ان کی جماعت اپوزیشن میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اگر مولانا صاحب ہم سے ناراض ہیں تو ہم انہیں راضی کر لیں گے۔