گزرے جمعہ کی شام وزیر آباد اور ڈسکہ میں ہوئے ضمنی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل مکمل ہوتے ہی وزیر اعظم ہائوس کو ’’اطلاع‘‘ پہنچادی گئی کہ وسطی پنجاب کے ان شہروں میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی خالی ہوئی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار جیت جائیں گے۔مذکورہ اطلاع کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ جولائی 2018کے انتخابات کے دوران ہزاروں مشکلات کے باوجود یہ نشستیں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے امیدواروں نے بھاری بھر کم اکثریت سے جیت لی تھیں۔ اس جماعت کے ’’ووٹ بینک‘‘ کو زک پہنچانے کے لئے ابھی تک کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا۔ضمنی انتخاب کے لئے جو خواتین مسلم لیگ (نون) نے نامزدکی تھیں وہ وفات پائے اراکین کی خاندانی ’’وارث‘‘ تھیں۔ وارثوں کو بآسانی ہمدردی کا ووٹ میسر ہوجاتا ہے اور ا نتخابی مہم بھی ان دونوں نے بہت جاندار انداز میں چلائی تھی۔
حکمرانوں کا دل خوش فہم مگر حقائق کی چھان بین کو آمادہ نہیں ہوتا۔تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے ویسے بھی 13دسمبر2020کی شام لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے مینارِ پاکستان کے سائے تلے ہوئے جلسے کو ’’ناکام‘‘ قرار دے رکھا ہے۔اس جلسے کی ’’ناکامی‘‘ کے اثرات ضمنی انتخابات کے دوران نمایاں ہونے کا بے تابی سے انتظار کررہے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ ’’ہرپل کی خبر‘‘ دینے والے ٹی وی چینلوں کو ’’خوش خبری‘‘ سنانے کو تیار کیا جائے۔
ہر حوالے سے ’’تابعدار‘‘ ہوئے میڈیا کو تاہم اپنی ’’آزادی‘‘ اور ساکھ کا بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے۔موبائل فون کے زمانے میں فیلڈ میں متحرک رپورٹروں کے پاس اپنی ’’خبر‘‘ کو درست ثابت کرنے کے بے تحاشہ ثبوت موجود ہوتے ہیں۔جس حلقے کے بارے میں وہ رپورٹنگ کررہے ہوتے ہیں وہاں کے رہائشی بھی ضمنی انتخاب کے دن بہت ’’حساس‘‘ ہوتے ہیں۔برسرزمین حقائق کے برعکس کہانی کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنا ناممکن بنادیتے ہیں۔
ووٹوں کی گنتی کا عمل دریںاثناء شروع ہوچکا تھا۔رات آٹھ بجے کے بعد یہ رحجان (Trend)نمایاں ہونا شروع ہوگیا کہ تحریک انصاف یہ نشستیں جیت نہیں پائے گی۔ حکمران جماعت کے لئے تاہم ’’اچھی خبر‘‘ یہ تھی کہ وہ اپنے مخالفین کو جولائی 2018کے برعکس Tough Timeدے رہی ہے۔مقابلہ یک طرفہ نہیں کانٹے دار نظر آیا۔ اس پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حامیوں کے لئے خوش کن وتسلی بخش ماحول بنایا جاسکتا تھا۔میڈیا کی زبان میں اسے Feel Goodماحول پکارتے ہیں۔ایسے ماحول کو مگر نوشہرہ سے آئے نتیجے نے کاری ضرب لگادی۔پرویز خٹک صاحب کے آبائی شہر سے خالی ہوئی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست مسلم لیگ (نون) کے اختیار ولی نے جیت لی۔ پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے بھی پشتون قوم پرستی کی دعوے دار ا ے این پی نے ضمنی انتخاب کے دوران یہاں اپنا امیدوار کھڑا کررکھا تھا۔اس کی موجودگی بھی حکمران جماعت کے کام نہیں ا ٓئی۔اس صوبے میں جہاں تحریک انصاف 2013سے برسراقتدار ہے نوشہرہ کا ضمنی انتخاب ہارنے والے دن ہی مسلم لیگ (نون) کو وسطی پنجاب میں پچھاڑدینے کا دعویٰ قابل اعتبار بنایا نہیں جاسکتا تھا۔ بہت انتظار کے بعد بالآخر خبر یہ بھی آگئی کہ وزیر آباد کی صوبائی اسمبلی والی نشست تحریک انصاف ہارگئی ہے ۔اس شہر کے ہمسائے میں واقعہ ڈسکہ سے ’’مختلف‘‘ خبر آنے کی لہٰذا گنجائش نہ رہی۔
رات کے گہرا ہوتے ہی مگر ڈسکہ میں ’’دھند‘‘ پھیلنا شروع ہوگئی۔ 23پولنگ اسٹیشنوں کا انتخابی عملہ اور وہاں ڈالے ووٹ اس میں ’’غائب‘‘ ہوگئے۔’’دھند‘‘ کی شدت نے مبینہ طورپر موبائل فونز بھی ناکارہ بنادئیے۔ڈسکہ میں ڈالے ووٹوں کی گنتی مکمل نہ ہوپائی۔مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نمائوں نے رات گئے تک دہائی مچاتے ہوئے ’’دھاندلی‘‘ کا ماحول بنانا شروع کردیا۔شاید ان کی دہائی کسی کام نہ آتی۔آئینی اعتبارسے کامل ’’خودمختار‘‘الیکشن کمیشن نے تاہم ہفتے کی صبح کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی باقاعدہ طورپر جاری ہوئی ایک پریس ریلیز کے ذریعے ’’دھند‘‘ کے باعث تعطل کا شکار ہوئے انتخابی نتائج کی بابت سنگین سوالات اٹھادئیے۔پنجاب پولیس اور ضلعی انتظامیہ ان سوالات کی بدولت ’’مشتبہ کردار‘‘ ادا کرتے محسوس ہوئے۔لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جو پولنگ اسٹیشن ’’دھند‘‘ میں غائب ہوگئے تھے۔وہاں ووٹ ڈالنے کی شرح 80فی صد سے تجاوز کرتی دکھائی گئی۔ 300کے قریب دیگر مقامات پر جبکہ یہ تناسب 40فی صد کو چھوتا بھی نظر نہیں آیا۔ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج اس کی وجہ سے مزید ’’مشکوک‘‘ ہوگئے۔
انتخابی نتائج کا ’’مشکوک‘‘ قرار پانا وطنِ عزیز میں ’’انہونی‘‘ تصور نہیں ہوتی۔اندھی نفرت وعقید ت میں بٹے معاشرے میں حقائق کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ’’جمہوریت‘‘ ہمارے لئے ویسے بھی کئی حوالوں سے ایک ’’پرائی‘‘ شے ہے۔دُنیا کی لیکن طاقت ور ترین جمہوریت مشہور ہوئے امریکہ کے گزشتہ برس نومبر میں منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے نتائج بھی ٹرمپ کے جنونی حامیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔انتخابی نتائج کی بابت جھگڑے البتہ سیاسی فریقین تک ہی محدود رہتے ہیں۔ہماری تاریخ میں غالباََ پہلی بار ہوا ہے کہ ا نتخابی عمل کے حتمی ذمہ دار ٹھہرے الیکشن کمیشن نے باقاعدہ انداز میں لکھی ایک پریس ریلیز کے ذریعے ڈسکہ میں ہوئے ضمنی انتخاب کی بابت سوالات اٹھادئے ہیں۔ان سوالوں سے مفر ممکن نہیں۔
پنجاب پولیس اور ضلعی انتظامیہ خود کو معصوم ثابت کرنے پر ڈٹی رہی تو قضیہ فقط سیاسی فریقین تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ریاست کا ایک آئینی ادارہ یعنی الیکشن کمیشن آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی ’’غیر سیاسی‘‘ انتظامیہ کی غیر جانب داری کو مشکوک بناتا نظر آئے گا۔ریاستی ستونوں کے مابین ایسی کشمکش اندھی نفرت وعقید ت سے مغلوب ہوئے پاکستان میںہرگز خیر کی خبر نہیں ہے۔اس کا انجام سوچتے ہوئے خوف آتا ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب کئی برسوں تک ’’سکھا شاہی‘‘ کی پھیلائی ابتری کا شکار ہوگیا تھا۔برطانوی سامراج اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1840کی دہائی میں اس صوبے کا مالک بھی ہوگیا۔یہاں قبضہ جمانے کے بعد اس نے مشہور زمانہ لارنس برادران کے ذریعے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا جو نظام قائم کیا تھا اسے Steel Frameکہا جاتاتھا۔یہ رعایا کے ہر شہری کو برابر تصور کرنے کا دعوے دار تھا۔فقط ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر فیصلہ سازی کے گماں نے اس نظام کو تابعدار اور وفادار ’’جی حضوریے‘‘ فراہم کئے۔ اسی باعث پنجاب میں سامراج سے آزادی کی تڑپ کبھی شعلہ جوالہ نہ بن پائی۔ اقبالؔ ’’’خوئے غلامی‘‘ کی بابت کڑھتے ہوئے جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ 1946کے اختتامی ایام میں تاہم ’’تازہ خبر‘‘ آگئی۔’’خضر ساہڈابھائی‘‘ ہوگیا۔ اس کی بدولت قیام پاکستان یقینی نظر آیا تو پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ انگریز کا بنایا Steel Frameان پر قابو پانے میں قطعاََ ناکام رہا۔
ڈسکہ میں ’’دھند‘‘ نے جو ماحول بنایا ہے اس نے دورِ حاضر کے Steel Frameکی بابت بھی پریشان کن سوالات اٹھادئیے ہیں۔ایک بار پھر یاد دلارہا ہوں کہ یہ سوال تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین نہیں اٹھارہے۔’’لفافہ صحافی‘‘ بھی اس کے ذمہ دار نہیں۔شک وشبے کا اظہار ریاست پاکستان کے ایک ’’آئینی ادارے‘‘ کی جانب سے ہوا ہے۔یہ ادارہ جب یہ دعویٰ کرے کہ جمعہ کی رات تین بجے تک وہ پنجاب کے چیف سیکرٹری سے رابطہ نہ کرپایا تو میرے اور آپ جیسا بے آسرا شہری خود کو مزید بے بس تصور کرنے کو مجبور ہوگا۔ بے بسی آپ کو دیوار کے ساتھ لگاتی نظر آئے تو بلی جیسا کمزور وبزدل جانور بھی پلٹ کر اپنی جان بچانے کے لئے پنجہ آزمائی کو مجبور ہوجاتا ہے۔ریاستی مشینری کو لہٰذا اپنے ہی وسیع تر مفاد میں صدیوں سے تابعدار رہنے کی عادی رعایا کے دلوں میں لاوارث ہونے کا احساس اجاگر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ڈسکہ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست اگر مسلم لیگ (نون) جیت بھی جاتی تو یہ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کے اقتدار کے لئے خطرے کی گھنٹی ہرگز نہ بجاتی۔نجانے کیوں اس حکومت سے وابستہ چند خود ساختہ ’’نورتن‘‘ یہ ثابت کرنے کو تل گئے کہ وسطی پنجاب میں نواز شریف سے وابستہ ’’ووٹ بینک‘‘ کے دن تمام ہوئے۔ضلعی انتظامیہ کے بے دریغ استعمال کے ذریعے ’’بادشاہ‘‘ کا دل موہ لینے والے ’’حقائق‘‘ گھڑنا آج تک کسی بھی حکومت کے کام نہیں آیا ہے۔تاریخ کا المیہ مگر یہ ہے کہ اس سے سبق سیکھنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔
ڈسکہ الیکشن: نتائج پر دُھند
Feb 22, 2021