’’ارشاد نامہ‘‘ درسی کتاب کے طورپرقانون کی ڈگری کیلئے منظور تو نہیں کی جا سکتی تاہم وکیل سے جج بننے کا ہر خواہش مند قانون کا طلب علم اسے پڑھ کر تو اس میں ایک جذبہ ابھرے گا کہ معاون حیف جسٹس پاکستان کے منصب جلیلہ تک کیسے پہنچا جاتا ہے؟ اہلیت اور قابلیت کے ساتھ خدا کا فضل اور قسمت کی بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ ہر چھوٹی بڑی بات خدا نے لکھ رکھی ہے اور اسکے لکھے کو کوئی دنیاوی طاقت نہیں بلکہ وہ خود ہی مٹا سکتا ہے۔ اچھا وکیل اور جج بننے کیلئے خوداعتمادی سب سے اعلیٰ وصف ہے جو جسٹس ارشاد خان میں غیرمعمولی درجے پر دکھائی دیتی ہے۔ ارشادنامہ تمام جج صاحبان کیلئے ایک تحریک ہے کہ وہ بھی اپنی سوانح حیات کے ساتھ اپنے تجربات کی داستان رقم کریں۔ ارشاد نامہ سادہ و سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب وکلائ‘ جج صاحبان اور تاریخ کے طلباء کیلئے معلومات کا خزانہ ہے۔ جسٹس ارشاد حسن ارشاد نامہ کی دوسری جلد میں ان وجوہات پر ضرور لب کشائی کریں کہ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ نے کبھی آئین پاکستان کی کسی بھی آئینی بحران کے دوران اس قدر حفاظت کیوں نہ کی جس قدر قوت کا تقاضا تھا۔ جج آمروں کے سامنے اپنی نوکریاں قربان کرنے سے کیوں کر گریز کرتے رہے؟ ارشاد نامہ بتاتا ہے کہ جسٹس ارشاد حسن واقعی ایک سلیف میڈ انسان ہیں۔ بہت کم بچے ایسے ہیں جو اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ وظائف پر نہیں چلتے اور پلتے اور پھر کسی بلند ترین مقام کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جسٹس ارشاد گورنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹ پالیٹکس میں بھی ایکٹو رہے۔ سوانح عمری میں یادداشت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ بچپن سے بزرگی کے ماہ و سال تک کی طویل داستان رقم کرنا اچھے حافظے کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ عموماً وہی لکھ سکتا ہے جسے بچپن سے ڈائری لکھنے کی عادت ہو یا پھر وہ غیرمعمولی یادداشت کا حامل ہو۔ کسی بھی سوانح کو پڑھ کر مصنف کی تعریف کرنا ضروری نہیں‘ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بطور جج اس نے نظام عدل میں کیا تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ عدالتی نظام جوں کا توں بلکہ دشوار گزار ہے۔ کم از کم بے وسیلہ عام شخص کیلئے تو سوہانِ روح ہے۔ معمولی نوکرانیاں بھی وکلاء کا سہارا لے کر دیدہ دلیری سے اپنی چوری کو مسترد کرتی ہیں۔ اسی طرح جائیدادوں پر قابض اور کرایہ داروں کا مالک مکان کو ناکوں چنے چبوانا عام ہے۔ قانون میں تفتیش کیلئے کم از کم تین رکنی کمیٹی فوجداری مقدمات کیلئے ضروری قرار دینے میں کیا حرج ہے؟ ایک اے ایس آئی قتل کے مقدمے میں تفتیشی ہوتا ہے۔ اس کا لکھناحتمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کیلئے منہ مانگی رشوت لینا کتنا آسان ہے۔ تین رکنی کمیٹی میں کوئی ایک رکن تو ایسا ضرور ہوگا جو غیرجانبدارانہ تفتیش کریگا۔ پیسے کے چکر میں نہیں پڑیگا جیسے عدالتی ڈویژن بنچ میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج بھی تو ہوتے ہیں۔ ایسی سفارشات آخر کون دیگا؟
پاکستان کے جتنے چیف جسٹس سپریم کورٹ گزرے ہیں‘ ان سے زیادہ عدلیہ کے معاملات اور مشکلات کوئی اور نہیں جانتا۔ وہ پہاڑ کی چوٹی پر‘ زمین سے اٹھ کر نیچے‘ چھوٹی عدالتوں سے سفر وکالت شروع کیا محنت اور قسمت نے انکی یاوری کی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے قاضی ٹھہرے۔ کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس سے اس بڑے قاضی نے حلف نہ لیا ہو۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہر بڑے قاضی نے مقدمات کی بھرمار اور طویل مدت تک فیصلے نہ ہونے کا کوئی حل کیوں نہ نکالا؟ چھوٹی عدالتوں کا منظر لاری اڈوں سے بھی برا ہے۔ بھیڑبھاڑ سے سائل جھوٹے گواہوں اور وکیلوں کے پیچھے دوڑ لگاتے اور پیسے لٹاتے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالتیں ہیں کہ وہاں تاریخ پر تاریخ کے سوا کچھ نہیں۔کیا وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف کے وعظ و نصیحت کا بار کونسلوں پر اثر نہیں ہوتا۔ بار کونسلوں کا مقصد اور کردار کیا ہے۔ مقدمات کے فیصلوں کی مدت کا تعین کرنے میں کونسی رکاوٹ حائل ہے۔ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات کا نتیجہ ایک معینہ مدت تک ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ 90 دن میں مقدمہ کیوں نہیں نمٹایا جا سکتا۔ عدالت بھی چھ چھ گھنٹے کی دو شفٹوں میں چل سکتی ہیں۔ تجربہ کار وکلاء کی بھرمار ہے۔ چھوٹی عدالتوں کیلئے بار کونسلوں کی مشاورت سے جج میسر آسکتے ہیں۔ ہر چیف جسٹس پاکستان کا تھنک ٹینک ہے۔ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں وزیراعظم کو عدلیہ میں اصلاحات کی سفارش کر سکتا ہے یا پھر وزیراعظم خود تمام حیات چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ایک تھنک ٹینک فورم قائم کریں جس کی قیمتی سفارشات پر صدارتی آرڈی نینس سامنے لائیں۔ صحیح فیصلوں کی راہ میں بار کونسلوں کے دبائو میں نہ آئیں بلکہ تھنک ٹینک سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ بار کی مشاورت اور اتفاق رائے سے اصلاحات کا پیکیج تیار کرے۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی طرح ہر حیات چیف جسٹس اپنے دور کے اصلاحاتی پروگرام کو سامنے لائے‘ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ محلے کی سطح پر مسجد عدالت بھی قائم ہو سکتی ہیں۔ جہاں گلی محلوں کے فیصلے وہیں نمٹائے جاسکتے ہیں۔ ججوں سے زیادہ کوئی وسیع المطالعہ نہیں ہوتا۔ ان کا مشاہدہ ذہانت اور مطالعہ بے مثل ہوتا ہے۔ یہ غیرمعمولی لوگ ہی پاکستان کا اصل معدنی خزانہ ہیں۔ جج بالعموم کسی کے دبائو میں نہیں آتا۔ یہ الگ بات ہے کہ آمروں نے بعض کو ضمیر فروشی پر مجبور کیا۔ ارشاد نامہ کی طرح ہر حیات ریٹائرڈ چیف جسٹس کا عدالت نامہ سامنے آنا چاہیے جس میں وہ بیان کرے کہ اس نے کس طرح بے خوف ہو کر فیصلے کئے۔ عدلیہ واقعی آزاد ہوتی ہے یا اسے پس پردہ دباؤکا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ آمریت اور جمہوریت میں ججوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ آمر نہیں دبائو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر جمہوری حکمران بھی آمروں جیسا چلن رکھتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زبان پر سے ٹیپ ہٹ جاتی ہے۔ ذاتی مفادات بھی پیش نظر نہیں ہوتے۔ خوف دور بھاگ جاتا ہے۔ کوئی عمررسیدہ شخص کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ بگاڑا تو عہدے کا جاتا ہے‘ عہدہ رہتا ہے یا پھر عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
مصلحتوں کے جھولے میں زندگی گزر جاتی ہے۔ جج صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد پورا سچ بول سکتے ہیں۔ ’’مشرف‘‘ جیسا گردن پر سوار ہو تو آدھا سچ ہی بولا جا سکتا ہے۔ ارشاد نامہ کی ممکن ہو تو جلد دوم بھی شائع ہو سکتی ہے جس میں اس پرتبصرہ میںاٹھائے سوالات کا ماحصل بیان کیا جا سکتا ہے۔ بشری کمزوریوں کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ جج ہی دیانت داری سے بتا سکتے ہیں کہ ملک میں نظریۂ ضرورت کہاں تک جائز تھا؟ اور جتنی بار آمروں نے شب خون مارا اسکی واقعی معقول وجوہات تھیں۔