بلڈپریشر، خاموش قاتل

 قربان علی سالک نے کہا اور خوب کہا
تنگدستی اگر نا ہو سالک 
تندرستی ہزار نعمت ہے
 بچپن سے یہ سنتے رہے اس محاورے کا مفہوم عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہی واضح ہوا ۔ واقعی صحت وتندرستی جیسی  بڑی کوئی دولت اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ زندگی کی ساری نعمتوں سے اسی وقت لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ جب آپ کسی بھی بیماری سے دوچار نہ ہوں۔رنگوں کی قوس وقزح بھی اسی وقت بھلی لگتی ہے انسان نے جہاں اپنی خداداد ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی آسائشیں حاصل کرلی ہیں اور یوں اپنی کٹھن زندگی کو سہل انداز میں گزارنے کے راستے ڈھونڈ نکالے ہیں وہاں ایسی بہت سی بیماریوں کو بھی گلے لگا لیا ہے جو پہلے اس سے کوسوں دور تھیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بہت سے لوگ ان کے نام سے بھی ناآشنا تھے۔ سادہ غذا، ہاتھ سے کام کرنے کی عادت، اخلاقی اقدار کی پاسداری انہیں چاق وچوبند رکھتی تھی مشینوں نے ان کا بوجھ تو ہلکا کر دیا مگر نہ ختم ہونے والی بیماریوں کا وزن اس پر لاد دیا۔وطن عزیز میں یوں تو آئے دن مختلف بیماریوں اور پیچیدہ امراض کے بارے میں آگاہی اور بچائو کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود  ان جان لیوا امراض میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اور مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے کچھ عرصہ قبل تک چند بیماریاں ایسی تھیں جو عمر رسیدہ افراد کو ہی لاحق ہوتی تھیں یعنی اگر آپ بیماری کا نام لیں تو ڈاکٹر فوراً مریض کی عمر بتا دیتے تھے ان بیماریوں کی شدت اور کمی میں معاشرتی صورت حال بھی اہم کردار ادا کرتی ہے مگر اب صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے جن میں کھانے پینے کے طریقے رہن سہن کے انداز، اخلاقی اقدار و روایات کی تنزلی، عامیانہ سوچ نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ سماجی وقار کسی زمانے میں چوراہے اور مصروف شاہراہیں اعلی اشیاء کی  خرید وفروخت کے لئے استعمال ہوتی تھیں اب یہ ہی پلیٹ فارم پگڑی اچھالنے کے کام آتے ہیں ایسے ایسے الزامات مخالفین پر دھرے جاتے ہیں جن کی ماضی میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔ شرفاء  بے بسی کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں اور جن کے پاس نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ جواب۔ وہ سب کو لاجواب کر جاتے ہیں کیونکہ اس زہر افشانی کا  جواب  کسی بھی مہذب معاشرے کے پاس موجود نہیں۔ وفاقی دارالحکومت  میں مختلف سیکٹروں سے جو معلومات دیکھی گئیں ہیں اس میں دیگر امراض کے علاوہ بلڈ پریشر (بلند فشار خون) کے مرض میں خاصا اضافہ ہوا ہے  بلکہ اس کی تعداد حیران کن ہے خاص طور پر اس مرض کا شکار دس، بارہ سال سے لے کر بیس سال تک کے نوجوان ہیں کچھ عرصہ قبل تک بلڈپریشر کے مریض عمر رسیدہ افراد ہوا کرتے تھے کیونکہ امراض قلب کی مہلک اور جان لیوا بیماری کی شروعات اسی سے ہوتی ہے جو اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے ہمہ وقت ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ مگر آج کل حکومتی صورت حال بھی اس میں اضافے کا بڑا سبب ہے۔ افسران بالا کی خوشنودی، اچھے محکمے میں پوسٹنگ، بڑے گریڈ میں تقرری، پرانے کھاتے ختم نئے شروع وزیراعظم اور ان کے چہیتے افسران تک  رسائی حاصل کرنا ہے اور اقتدار کوریڈوز تک پروانہ راہداری حاصل کرنا۔ میرٹ اور سفارشی کلچر کا اب یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ بظاہر ہم سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں مگر بیماریاں ہمارے نظام صحت میں سرنگ لگا رہی ہیں ان میں اضافے کا سبب  دو نمبریعنی جعلی ادویات  ویکسین، ڈرگ مافیا کی اجارہ داری، ادویات کی ہوشربا قیمتیں اوپر سے کرونا جیسا وبائی مرض جو آنکھ بچاتے ہی اپنا کام کر جاتا ہے۔ اور کرونا کا یہ وار وہاں ہی کارگر ہوتا ہے جہاں سرنگ لگ چکی ہے۔ ڈسپنسری، کلینک اور ہسپتال آنے والا ہر دوسرا شخص ہائی بلڈپریشر یا لو بلڈ پریشر کا شکار ہے  بلڈ پریشر کا تعلق اس خون سے ہے جو دل جسم میں پمپ کرتا ہے اور ایک منٹ میں دل جتنی مرتبہ خون کو پمپ کرتا ہے اسے بلڈ پریشر کہتے ہیں اسی عمل کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء اپنا کام درست طریقے سے انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں جسم میں انرجی (قوت) کم ہو گی تو دل کی پمپ کرنے کی قوت کم ہوگی تو دل کی پمپ  کرنے کی قوت طاقت کم ہو رہ جائے گی اور خون کم  پہنچے  گا اس وجہ سے بلڈپریشر لو ہو جائے گا یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ایڈز، تپ دق جیسے امراض ہوں اسی وجہ سے بھی خون کا دبائو کم ہو جاتا ہے  ہائی بلڈپریشر کی وجوہات میں دل کی بیماریاں، نمکیات کی زیادتی، گردے کے امراض  شامل ہیں مثال کے طور  پر معاشرے کے وہ افراد پر  پالیسی میکر ایڈمنسٹریشن سے وابستہ ہوتے ہیں یہ لوگ دماغ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں بہت سوچتے ہیں اور اکثر ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں جبکہ کسان، مزدور اور دیگر محنت کش اس مرض سے بچے رہتے ہیں کیونکہ وہ جسمانی مشقت کرتے ہیں بلڈ پریشر زیادہ ہو جانے کی صورت میں جسم کے کسی بھی حصے پر فالج ہو سکتا ہے اس سے بچنے کے لئے نمکیات کا استعمال کم سے کم کیا جائے روغنی اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کیا جائے پانی کا استعمال زیادہ ورزش اور سیر کو معمول بنا لیا جائے۔ بچوں میں اس مرض کا بڑھنا خطرناک صورت حال کی نشاندہی ہے اس کی وجہ سے ماڈرن ٹیکنالوجی کے سبب وہ کھیل کے میدان سے دور ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، چیٹنگ میں گھنٹوں مصروف  رہتے ہیں وبائی مرض کرونا کی تازہ لہر نے جو سماجی دوری پیدا کی ہے اس سے بھی جسمانی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئیں ہیں۔۔اس وبائی مرض کے خوف نے عوام الناس میں ذہنی دبائو کو بڑھا دیا ہے جس سے وہ مزید بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں خاص طور پر بلڈ پریشر اور شوگر ان مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے دوسری جانب حکومت یہ راگ الاپتے نہیں تھکتی کہ وطن عزیز کے باسیوں کو صحت کی سہولیات ان کی دہلیز پر پہنچا دی گئیں ہیں اس طرح بیماریوں اور سرجری پر اٹھنے والے تمام اخراجات حکومت پاکستان کارڈ پر درج ہدایات کے مطابق ادا کرے گی۔کاش ان کارڈز کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو سنوسنو میرے پاکستانیوں کہہ کر ایسے کارڈ جاری کئے جائیں۔ جو انہیں کھیلوں کے میدانوں سے صحت وتندرستی کی طرف لے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن