پروفیسر حفیظ الرحمن احسن 9 اکتوبر 1934 ء کو ضلع سیالکوٹ کے نواحی شہر پسرور کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مستری عبدالعزیز کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا ۔ آپ کو اوائل عمری میں ہی اپنے گھر میں مولانا ابوالکلام آزاد ٗ مولانا شبلی نعمانی ٗ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری ٗ چوھدری افضل حق ٗ مولانا ظفر علی خاں ٗ مولانا اشرف علی تھانوی ٗ مولانا شبیر احمد عثمانی ٗ مولانا احمد علی ( لاہوری) مولانا سیدابوالاعلی مودودی کی تصانیف میسر رہیں ،جن کا ذوق و شوق سے مطالعہ ہمیشہ آپ کی دلچسپیوں میںشامل رہا ۔ آپ کے ادبی ذوق کی تربیت میں گورنمنٹ ہائی سکول پسرور کے استاد گرامی طاہر شادانی ٗ رائے احمد دین ٗ محمد منیر اور مرے کالج سیالکوٹ کے پروفیسر آسی ضیائی کا بہت عمل دخل رہا۔ زندگی کے اسی دورمیں مولانا سیدابوالاعلی مودودی کی شخصیت ٗ تحریک اور افکار سے بھی آپ کو تعارف حاصل ہوا۔ بعد ازاں یہی تعارف آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی عنصر کی حیثیت اختیار کرگیا ۔ میٹرک میں آپ اپنے سکول میں تیسرے نمبر پر آئے۔ 1951ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ کاامتحان اچھے نمبروںمیں پاس کرلیا ۔ 1952ء میں آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ 1956 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا- پنجاب یونیورسٹی میںعربی کے مضمون میں پہلی پوزیشن کی بنا پر آپ کو وظیفے کا حق دار ٹھہرایا گیا ،اس طرح ایم اے عربی کے لیے آپ نے پنجاب یونیورسٹی اورئنٹیل کالج میں داخلہ لے لیا۔ 1959 میں ایم اے عربی میں پنجاب یونیورسٹی کی سطح پر آپکی پوزیشن تیسری تھی ۔ 18 دسمبر 1959ء کو آپ نے زندگی کی پہلی تدریسی ملازمت کا آغازگورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج ( لائل پور ) فیصل آباد میں بطور عربی لیکچرر کیا ۔ ستمبر1962 ء میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج سرگودھا ہوگیا۔ یہیں پر اس عارضی ملازمت کااختتام ہوا ۔ پھر ستمبر 1963 میں مرے کالج سیالکوٹ میں بطور عربی استاد دوبارہ ملازمت کا آغاز کیا ۔1965 میں آپ نے ایم اے اردو کا امتحان بھی پاس کرلیا ۔ 1966ء میں مرے کالج کی ملازمت چھوڑ کر مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوگئے ۔ 1965 ء ہی میں آپ نے اپنے معروف اشاعتی ادارے ’’ایوان ادب ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ اسی ادارے کے زیر اہتمام پروفیسر آسی ضیائی ٗ پروفیسر طاہر شادانی ٗ پروفیسر محمد حنیف ٗ پروفیسر عبدالحمید ڈار ٗ پروفیسر امین جاوید جیسے رفقائے کار کے اشتراک عمل سے آپ نے کئی دھائیوں تک شعبہ اردو ٗ سیاسیات اور معاشیات میں حکمرانی کرنے والی کتب کی اشاعت اور ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1980ء میں ابتدائی اردو کی تدریس کے لیے " اردو کا خوبصورت قاعدہ ’’اور ‘‘اردو کی خوبصورت کتاب اول و دوم " بھی آپ کی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں میں شامل رہی۔ اس میں پروفیسر محمدارشد خان بھٹی اور ان کی اہلیہ بھی شریک تھیں۔ طالب علمی کے میں آپ مرے کالج میگزین کے طالب علم مدیر رہے جبکہ 1955 تا 1956 ء محمد سرور قریشی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے " الفقر " سے بطور مدیر معاون ایک سال تک منسلک رہے ۔ 1970 ء کی آخری سہ ماہی میں ماہنامہ " سیارہ " ڈائجسٹ اور1976 میں نعیم صدیقی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی اور اسلامی رسالے " سیارہ " کے ساتھ آپ نے وابستگی کا آغاز کیا ۔آپ کی تخلیقات اور تصنیفات میں ایک شعر ی مجموعہ ،فصل زیاں ٗ ننھی منی خوبصورت نظمیں ( بچوں کے لیے شاعری ) ٗ موج سلسبیل ( حمد و نعت ) ٗ ستارہ شام ہجراں کا ٗ اورنوائے راز ( غزلیں ) شامل ہیں ۔ بو قلم کے عنوان کے تحت علمی اور ادبی مضامین اب بھی منتظر اشاعت ہیں ۔ 1965 کی رزمیہ نظموں کے اولین مجموعہ" گلبانگ جہاد" کی اشاعت کا کریڈٹ بھی بلاشبہ آپ کو جاتا ہے ۔متحدہ پاکستان کے آخری دور میں ایک کتاب " جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان " کے نام سے بھی مرتب کرکے شائع کی۔ ان کی تالیف کردہ آخری کتاب "" پروفیسر غازی کے مکاتیب تھی ۔
آپ نے اپنی پوری زندگی کو دین کی ترویج ٗ اسلامی ادب کے فروغ اور معاشرتی فلاح کے لیے وقف کئے رکھا ۔23فروری 2020ء کو وہ گھڑی بھی آپہنچی جب عالم اسلام کی یہ عظیم ادبی شخصیت دنیائے فانی کو خیرباد کہہ کر اس جہان میں جا بسی جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔
ادب اسلامی کے نقیب ،پروفیسر حفیظ الرحمن احسن
Feb 22, 2021