صدیوں سے مسلمان اقوام پر یورپی اقوام ظلم کر رہی ہیں۔ مسلم عوام کی خونریزی سے فرانسسیوں کے دست و گریباں خون آلود ہیں۔ مسلم ممالک کی سرحدوں میں گھس کر مظالم ڈھانے کی تاریخ آج شام اور عراق میں دہرائی جارہی ہے۔ اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ ظالم استعماری طاقتیں امن کے چیمپئن اور دلدادہ ہیں۔ فرانس سمیت پورا یورپ اسلامو فوبیا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے اور یہی وجہ ہے نت نئے اسلام دشمن قوانین کے تحت وہاں بسنے والی مسلم اقلیت کے گرد کھیرا تنگ کیا جا رہا ہے جس کی حالیہ مثال فرانس میں مسلم مخالف بل کی منظوری ہے ۔نئے قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد مسلمان، سکولوں کے علاوہ مساجد اور مدارس میں دینی تعلیم نہیں دے سکیں گے۔ مصری اخبار الاہرام کی رپورٹ کے مطابق اس میں مسلمانوں کی عائلی روایات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کا بھی مذاق اڑایا ہے۔ نبی اکرم ؐ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کو جواز بنا کر یہ بل پیش کیا گیا ۔ کیونکہ گستاخانہ خاکہ دکھانے والے ملعون ٹیچر سموئیل پاٹی کا سر ایک مسلمان نے تن سے جدا کر دیا تھا۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے اور زیادہ تر مسلمانوں کا تعلق الجزائر سے ہے۔ الجزائر پہلے فرانس کی نوآبادی رہا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے انتہا پسندی کا بہانہ بناکر مسلمانوں کو کچلنے کے لیے یہ قانون منظور کیا جبکہ اس میں ہدف صرف مسلمانوں کو ہی بنایا گیا ہے۔نئے قانون کے تحت فرانسیسی ریاست کو ایسے نئے وسیع تر اختیارات مل جائیں گے۔ جن کی مدد سے مسلمانوں کی اظہار رائے کی ٓآزادی پر بھی براہ راست حملہ ہے تاہم اس قانون کی 70 سے زائد مختلف شقیں ہیں۔ان شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست کے اختیارات میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا جائے گا کہ حکام نہ صرف مسلم مدارس اورمساجد کو بند کر سکیں گے۔ بلکہ اسلامی اور جہادی نظریات کی تبلیغ کرنے والے مبلغین پر پابندی بھی لگائی جا سکے گی۔ مسلم مذہبی گروپوں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ خود کو بیرون ملک سے ملنے والی بڑی رقوم سے حکام کو آگاہ کریں اور ساتھ ہی اپنے رجسٹرڈ بینک اکاؤنٹس کی تصدیق بھی کروائیں۔یاد رہے بل کی 347 ارکان نے تائید کی۔151 نے مخالفت اور 65 نے بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ہی نہیں دیا۔ اس بل کو فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جماعت لا ری پبلک ان مارش پارٹی، ڈیموکریٹک موومنٹ، ایجر پارٹی، یونین ڈیمو کریٹس اور انڈی پینڈٹس کی بھر پور تائید حاصل ہے۔ جبکہ دائیں بازو کی جماعت ری پبلکن اور بائیں بازو کی جماعت لا فرانس انسومیز پارٹی نے مخالفت کی جبکہ بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی اور فرنچ کیمونسٹ پارٹی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ری پبلکن اس بل کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔قانون میں اگر چہ کسی مخصوص مذہب کو پوائنٹ آئوٹ نہیں کیا گیا تا ہم زبردستی شادی اور کنواری پن کے ٹیسٹ کے بڑھتے ہوئے رحجانات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ جن میں تشدد کی کارروائیوں ، مذہبی انجمنوں کی کڑی نگرانی ، اور مرکزی دھارے کے سکولوں کے باہر بچوں کو تعلیم دینے پر سخت پابندیوں کیلئے آن لائن ماہر نفسیات کے خلاف سخت اقدامات شا مل ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ صلیبی جنگوں اور یوروپ کی استعماری قوتوں نے مسلم ممالک کے عوام پر جو مظالم ڈھائے اور خونریزی کی وہ دل دہلادینے والی ہے۔ 17 ویں سے 20 ویں صدی تک انسانیت سوز مظالم کا طویل سلسلہ جاری رہا اوروہ اب بھی جاری ہے۔16 ویں صدی میں یوروپی ممالک ،برطانیہ، فرانس، اٹلی، ولندیزی ،پرتگا ل، سپین و جرمنی نے اپنی فوجی طاقت وقوت کے ذریعہ دنیا کے مختلف قطعوں اور ممالک میں نوآبادیاتی نظام قائم کرنا شروع کیا۔ ظلم و استبداد کا خطرناک سلسلہ شروع ہوا۔ چند یوروپی اقوام کے ہاتھوں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔فرانس کے استعماری و نوآبادیاتی نظام کا آغاز 1625 ء سے فرنچ، گیانا، شمالی امریکہ پر قبضہ کرنے سے ہوا۔ 1900ء تک فرانس کے نوآبادیاتی نظام کا تسلط افریقہ ، ایشیاء ،یوروپ اور امریکہ کے کئی ممالک پر قائم ہوچکا تھا۔
مغرب میں اظہار رائے کی آزادی اور مسلمانوں پر قدغنیں
Feb 22, 2021