پنڈورا اور پاناما کے بعد اب سوئس لیکس بھی منظرِ عام پر

Feb 22, 2022

 صحافیوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کی جانب سے ایک تحقیق منظرِ عام پر لائی گئی ہے جس کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بدعنوان سیاستدانوں،آمروں اور مافیاز کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس سے قبل پاناما اور پنڈورا لیکس کے نام سے اسی نوعیت کی دو ایسی تحقیقات سامنے آچکی ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی تھی اور کئی اہم شخصیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی ہوئی تھی۔ پاناما اور پنڈورا لیکس انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے پلیٹ فارم سے منظرِ عام پر آئی تھیں۔ پنڈورا لیکس اب سے تقریباً ساڑھے چار ماہ پہلے 3 اکتوبر 2021ء کو جبکہ پاناما لیکس 3 اپریل 2016ء کو سامنے آئی تھیں۔ پنڈورا کو اس وقت تک اس نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق قرار دیا گیا تھا جس کی تیاری کے لیے 117 ممالک کے 150 میڈیا اداروں اور دنیا بھر کے 600 سے زائد رپورٹرز نے حصہ لیا تھا۔
او سی سی آر پی کی طرف سے سامنے آنے والی تازہ تحقیق کو ’سوئس لیکس‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے 100 ارب ڈالرز سے زائد کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ اس تحقیق میں مجموعی طور پر 18 ہزار بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ او سی سی آر پی کے مطابق، سوئس لیکس کے نام سے 47 میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے بڑی تحقیقات کی اور ان اکائونٹس کی تفصیلات لیک کی گئی ہیں۔ اس تحقیق کے ذریعے دنیا کی کئی اہم شخصیات کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں جن میں قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف، اردن کے بادشاہ شاہ عبد اللہ، زمبابوے کے سابق صدر رابرٹ موگابے، سابق مصری آمر حسنی مبارک، سابق مصری انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان اور آذربائیجان کے آمر واصف طالبوف کے بیٹوں رضا اور سمر طالبوف سمیت بہت سے لوگ شامل ہیں۔ تحقیق میں کچھ پاکستانی شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔
سوئس لیکس کے ذریعے جن بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں 1940ء کی دہائی سے لے کر 2010ء کی دہائی تک بینکوں میں کھلنے والے اکاؤنٹس کی تفصیلات شامل ہیں تاہم اس تحقیق میں بینکوں کے اس نوعیت کے تازہ معاملات سے متعلق اعداد و شمار سامنے نہیں لائے گئے۔ سوئس قوانین کے تحت بینکوں سے متعلق جو بھی صحافتی ادارہ خفیہ معلومات منظرِ عام پر لانے کے لیے کردار ادا کرتا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، لہٰذا اس خوف سے سوئٹزر لینڈ کا کوئی بھی ادارہ ان تحقیقات کی تیاری میں شریک نہیں ہوا۔ معروف امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں مختلف ممالک کے ان انٹیلی چیفس اور ان کے بچوں کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں جنھوں نے کسی وقت میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا۔ یوں یہ تحقیق بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل کسی بھی تحقیق کے ذریعے انٹیلی اداروں کے سربراہوں یا ان کے وابستگان کے غیر ممالک میں موجود اثاثہ جات کی تفصیلات کو یوں سامنے نہیں لایا گیا۔ او سی سی آر پی کے مطابق، ان اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی 15 انٹیلی جنس شخصیات یا ان کے خاندان کے افراد کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹس موجود ہیں۔
مالی معاملات اور خدمات کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے کریڈٹ سوئس کا کہنا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے سخت رازداری کے قوانین اسے صارفین کے بارے میں الزامات پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن ایک بیان میں اس ادارے کی طرف سے اس کے مبینہ کاروباری طریقوں کے بارے میں الزامات اور حاصل کردہ تفصیلات سے اخذ کیے جانے والے نتائج کو سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔ کریڈٹ سوئس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ او سی سی آر پی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے جن رپورٹروں نے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی ہیں انھوں نے معاملات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں منتخب معلومات استعمال کی گئی ہیں جن سے پوری صورتحال واضح ہو کر سامنے نہیں آتی۔ ادارے کی تردید اور اس وضاحتی بیان کے باوجود توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ دنوں میں سوئس لیکس کے ذریعے ایسے مزید بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سامنے آئیں گی جن میں دنیا بھر کے اہم افراد نے اپنے اثاثے جمع کررکھے ہیں۔
کسی بھی ملک کے شہری کا کسی دوسرے ملک کے بینک میں اکاؤنٹ کھولنا یا وہاں اپنی رقم رکھنا بذات ِخود کوئی جرم نہیں ہے تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ بیرون ملک کسی اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی اور اسے اپنے ملک سے باہر کیسے بھیجا گیا۔ پاناما اور پنڈورا لیکس کی طرح سوئس لیکس کے ذریعے بھی کئی ممالک میں مچنے والی ہلچل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ اپنے مخالفین کے خلاف مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ پاکستان میں ماضی میں ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا تاہم اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات کی تحقیق کرے کہ سوئس لیکس اور اس سے قبل سامنے آنے والی تحقیقات میں جن پاکستانی شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں وہ واقعی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہی ہیں یا نہیں۔ حقائق کو سامنے رکھے بغیر ایسی کسی بھی رپورٹ پر یقین کرلینا یا اس کی بنیاد پر کسی شخصیت کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنا قرین انصاف نہ ہوگا!

مزیدخبریں