کرکٹ کی بحالی پر اپوزیشن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ فواد چودھری
ہمیں تو کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ اپوزیشن والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ضرور پیٹ پکڑ کر پی ایس ایل کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے مگر ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہاں لاہور میں میچز کی وجہ سے شہری ٹریفک کے اژدہام میں پھنس کر کچھ دیر کے لیے ضرور شور مچاتے ہیں۔ مگر یہ کوئی اپوزیشن کی سازش نہیں یہ انتظامیہ کا مسئلہ ہے جسے اس پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ پی ایس ایل میچز کی وجہ سے امریکی قونصلر جنرل بھی اپنی فٹنس دکھانے کے لیے پش اپ لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ ان کا مسرت کا اظہار ہے۔ وہ بھی اس ایونٹ کے پرامن اور بہترین طریقے سے انعقاد پر بہت خوش ہیں۔ اب کوئی اسے بھی پیٹ میں مروڑ نہ سمجھ بیٹھے۔ دنیا بھر میں کرکٹ کے ان پرکیف مقابلوں کو سراہا جا رہا ہے۔ اس لیے فخر زمان کے چوکے پر امریکی قونصلر نے جنرل بھی خوشی کے مارے پش اپس لگائیں۔ ویسے پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر سب خوش ہیں اور ان تمام اداروں کے شکر گزار ہیں جن کی مہربانی سے یہ ایونٹ نہایت محفوظ طریقے سے ہو رہا ہے اور کرکٹ کے شائقین نے لاہورمیں قذافی سٹیڈیم کو بھر کر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی کھیلوں کے شائق ہیں اور وہ اپنے کھیل کے میدان آباد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کسی کو ایسے معاملہ پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیاست چمکانے کے لیے بہت سے دیگر معاملات موجود ہیں۔ انہی پر توجہ رکھی جائے۔
٭٭٭٭
90 سے زیادہ حکومتی ارکان تحریک عدم اعتماد میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ جاوید لطیف
ہمارے سیاستدان لمبی لمبی چھوڑنے سے باز نہیںآتے۔ ایسی لاف زنی سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ کیا اپوزیشن والے بالفاظ دیگر مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور جے یو آئی والے قومی اسمبلی میں سینٹ میں اپنی پے درپے شکستیں بھول گئے ہیں۔ ہر بار ایسے ہی دعوے کیے جاتے تھے۔ تب بھی حالات اسی طرح تھے مگر دیکھ لیں قومی اسمبلی میں کیا ہوا۔ جنہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں جا مرے۔ غضب تو یہ ہے کہ جو ساتھ تھے وہ بھی کنی کترا کر گزر گئے۔ اپوزیشن تو اپنے ممبرز بھی پورے نہ کر سکی۔ سینیٹ میں تو اپوزیشن کواکثریت حاصل ہے مگر وہاں کیا ہوا۔ شرمندگی ہی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ اپوزیشن کی اپنی صفوں میں نجانے کتنے دلاور خان گروپ چھپے ہوئے ہیں۔ خود اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اپنا لانگ مارچ چلا رہی ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی اپنا دھرنا دینے پر بضد ہے۔ جماعت اسلامی والوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ ایسی صورتحال میں تو حکومت کے لیے ہر طرف خیر ہی خیر لگتی ہے۔ پھر یہ 90 ارکان اسمبلی کہاں سے آئیں گے۔ جاوید لطیف نے 9 ارکان کی بات کی ہوتی تو ہضم ہو سکتی تھی مگر یہ 90 ارکان اسمبلی والی بات نہ ہضم ہو رہی ہے نہ ہی دل و دماغ تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ اس لیے بعد میں جو بات مذاق کا باعث بنے وہ کہنے سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
٭٭٭٭
کرونا جیسی ایک اور وبا جلد دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ بل گیٹس
ابھی خدا خدا کر کے کرونا اور امیکرون سے جان چھوٹنے کے آثار پیدا ہوئے تھے کہ اب پھر عالمی اداروں کے بعد بل گیٹس بھی لوگوں کی بچی کچھی پونجی لوٹنے کے نئے پروگرام کا سندیسہ دے رہے ہیں۔ دنیا پہلے ہی عالمی وبا سے ڈری سہمی ہوئی ہے۔ اب اگر کوئی نئی وبا حملہ آور ہوتی ہے تو کیا ہو گا۔ نہ لوگوں میں ہمت رہی ہے نہ صحت نہ سرمایہ کہ وہ اس نئی وبا کے خلاف نبردآزما ہوں۔ عالمی اداروں کا کیا وہ تو ویکسین ادویات کے نام اپنا سامان فروخت کر کے اربوں ڈالر کمائیں گے۔ کرونا اور امیکرون میں ہی دیکھ لیں صحت سے متعلق ادویات و دیگر لوازمات تیار کرنے والی انڈسٹری نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی، اب بھی یہی ہو گا۔ ماہرین معاشیات کہتے ہیں دنیا میں آبادی کا تناسب بگڑ جائے یعنی زیادہ ہو جائے تو عالمی سطح پر وبائیں اور امراض آبادی میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ مگر وہ یہ حقیقت نہیں بتاتے کہ انہی امراض کی بدولت سرمایہ دار اربوں ڈالر کماتے بھی ہیں ۔ اب بل گیٹس کی طرف سے جو مشتری ہوشیار باش قسم کا بیان آیا ہے اس پر عالمی ادارہ صحت کو سنجیدگی سے پہلے ہی ویکسنیشن کی تیاری اور تقسیم کا پروگرام طے کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ تمام ممالک بھی جن کے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے، حفاظتی تدابیر اور جان بچانے والی ادویات و دیگر لوازمات کا ذخیرہ کر لیں تاکہ وقت پڑنے پر لوگوں کی جان بچائی جا سکے۔ کرونا نے ہمیں اچھا خاصہ سبق تو پڑھا دیا ہے کہ ایسے مواقع پر کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کیا کیا حفاظتی انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ پنجاب پتنگ بازی پر شدید برہم، سخت کارروائی کا حکم
پتنگ بازی ایک روایتی کھیل کے طور پر پنجاب بھر میں مقبول ہے۔ موسم سرما کے اختتام پر جب بسنت کی رُت آتی تو ’’آیا بسنت پالا اڑنت‘‘ کہہ کر اہلِ پنجاب بسنت کا روایتی تہوار مناتے۔ اس موسم میں پنجاب کے وسیع عریض ہرے بھرے کھیتوں میں سرسوں کے پھول کھلتے اور یہ پیلے پھول ایک عجب مستی طاری کر دیتے تھے۔ شاعروں، ادیبوں نے بسنت بہار اور سرسوں کے پیلے رنگ میں نہائے کھیتوں کھلیانوں پر بے شمار قصیدے لکھے کہانیاں اور فسانے لکھے۔ یہ پنجاب میں بہار کی آمد کا جشن ہوتا ہے۔ نجانے کس دور میں اس میلے میں پتنگ بازی نے بھی قدم جمایا اور دھیرے دھیرے بسنت کا تہوار پتنگ بازی کے ساتھ ہی نتھی ہو کررہ گیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ تہوار اور پتنگ بازی لاہور کا حصہ بن گئی۔ اسے اتنی شہرت ملی کہ دنیا بھر سے لوگ بسنت منانے لاہور آتے۔ پھر 1980ء کی دہائی کے بعد بدنہاد لوگوں نے اس میں تندی اور تار والی دھاتی ڈور شامل کر کے اسے قاتل کھیل بنا دیا۔ ہوائی فائرنگ کی جنونی لہر بھی جب اس میں در آئی تو ہر بسنت پر کئی افراد ڈور اور ہوائی فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہونے لگے تو اسے خونی کھیل قرار دے کرپتنگ بازی پر پابندی لگانا پڑی جو آج تک قائم ہے مگر اس کے باوجود چھپ چھپا کر کئی شہروں میں بسنت پر پتنگ بازی ہوتی ہے۔ جس پر وزیر اعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پابندی کے احکامات پر سختی سے عمل کا حکم دیا ہے۔ آج ملک کے باقی صوبوں میں بسنت تو منائی جاتی ہے مگر قاتل ڈور اور ہوائی فائرنگ کی وجہ سے پنجاب میں اس قاتل کھیل پر سختی سے پابندی ہے۔