’’ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ھے سپاہی‘‘مصحف علی میر شہید 

ائیر چیف مارشل مصحف علی میر کشمیری خاندان کے فرزند تھے ان کے  ابا و اجداد بہت عرصہ پہلے کشمیر سے نقل مکانی کر کے لاہورمیں آ بسے تھے۔ وہ 5 مارچ  1947 کو  لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔  متوسط کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ابھی کم عمر ہی تھے کہ  والد صاحب ( فرزند علی میر ) کے شفیق اور محکم سائے سے محروم ہو گئے۔ مصحف میر دل لگا کر پڑھنے والے طالب علم اور جاگتی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب  دیکھنے والے نوجوان تھے ۔میٹرک کا امتحان لاہور ہی میں مقامی سکول سے پاس کیا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ 
1965 کی پاک بھارت جنگ بھی د یکھ چکے تھے۔ جواں جذبوں نے انہیں اور جوش و جرات سے نوازا کر کچھ کر گزرنے کا سبق پڑھایا۔ وقت  بھی پاکیزہ جذبوں سے لیس روحوں  کی ہی  راہنمائی کرتا ھے اور  فطرت  بھی ان کی حنا بندی کا اہتمام کرتی ھے۔ مصحف میر ابھی یونیورسٹی میں  زیر تعلیم ہی تھے کہ پاکستان ائیر فورس نے فائٹر پائلٹ بننے کے خواہشمند طلباء سے درخواستیں طلب کیں۔ مصحف علی  میر نے بھی خود کو  مطلوبہ اہلیت  اور  معیار پر پورا اترنے  پر اپلائی کر دیا ۔  سارے ٹیسٹ اور انٹرویوز سے  کامیاب ہو کر  جنرل ڈیوٹی پائلٹ کورس نمبر 45 میں  منتخب ہونے پر  1966 میں پی اے ایف اکیڈمی رسالپور پہنچے۔ تربیت مکمل کی تو فروری 1967 میں بحثیت پائلٹ آفیسر کے کمیشن  پایا۔ 
1971 کی پاک بھارت  جنگ میں مصحف میر نے عملی حصہ لیا اور دشمن کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کیا۔ اپنے مزائلوں کا نشانہ بنایا انہیں نقصان پہنچایا ۔1971 کی جنگ میں نوجوان فائٹر پائلٹ مصحف میر کے عسکری مزاج میں  جو قابل فخر  نکھار آیا۔ ان کی  جنگی صلاحیتوں کا اظہار بڑا نیک شگون ثابت ہوا۔   میری دانست میں ائیر چیف مارشل مصحف علی میر کی پیشہ ورانہ اہلیت اور قائدانہ صلاحیتوں  کا اعتراف کرنا ضروری ہے ۔ ان پر  تبصرہ کرنے کی تو گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ایک سرونگ ائیر مارشل جو اپنے محکمانہ امتحانات اور کورسز پاس کر کے   پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کا ڈائریکٹر جنرل ہو اور انہیں پاکستان ائیر فورس اپنے روایتی انداز میں ان کی ممکنہ ریٹائرمنٹ کی پیشگی اطلاع بھی  دے چکی ہو۔ وہ 20 نومبر 2000 کو پاک فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ عسکری کلچر کا خاصہ ھے کہ اس کے آفیسرز اپنے  کیئریر میں معمول کی زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں ۔افیسر  اہلیت کی چھاننی سے گزرتا ھے جہاں وہ اپنی کسی خامی۔کمزوری کی وجہ سے سامنے آتا ہے  خود بخود کمتر ڈکلیئر  ہو کر عہدہ جاتی  ترقی کی دوڑ سے باہر ہو جاتا ھے ۔جو  آفیسرز جنرل  کے عہدے کی سطح تک پہنچتے ہیں تو پھر ان میں
 پروفیشن  کے اعتبار سے انیس  بیس کا  بھی فرق  نہیں ہوتا سوائے ان کی ذاتی عادات اور مزاج کے  ، ورنہ سب اہلیت کے اعتبار سے ایک جیسے ہی کمانڈر ہوتے ہیں۔  مصحف علی میر پاک فضائیہ کے پندرہویں سربراہ تھے۔وہ  1971 کے بعد جنگ کی سی صورتحال کا سامنا کرنے والے پہلے  سر براہ تھے ۔انہیں ملک میں پھیلی ہوئی  انتہا درجے کی دہشت گردی سے نمٹنا پڑا۔ انہون نے فکر و تدبر اور پیشہ ورانہ مہارت سے پاکستان آرمی کے ساتھ مل کر  اس بحران سے کما حقہ نمٹا اور اپنے جری کردار کی دھاک بٹھا کر دکھائی اور اپنی برتری منواتے ہوئے  ثابت کر دیکھایا کہ:" مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ھے سپاہی"آٹھ ماہ تک اپنے تاریخی  دشمن ہندوستان کے ساتھ  2002 میں  بارڈر پر آمنے سامنے بندوقیں تانے  رہنا پڑا۔ انہوں نے اپنے دشمن ہندوستان کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑے عسکری و جنگی  وسائل دستیاب ہونے کے باوجود  اعلیٰ اور جارحانہ کارکردگی دکھائی ۔ اپنی سپہ اور ان کے کمانڈرز  کا مورال بلند رکھا 
 صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
 جوش کردار سے بنتی ھے خدا کی آواز
  20 فروری 2003 کو ناگہانی طور پر فضائی حادثے کی نذر ہونا بھی ناخوشگوار  افسوسناک اور   پریشان کن واقعہ بنا۔ پاکستان ائیر فورس کے لیے یہ حادثہ بہت بڑا نقصان تھا۔ ائیر چیف ،ان کی اہلیہ، دو ائیر وائس مارشلز اور کئی سینئر آفیسر بھی  اسی فضائی حادثے میں لقمہ اجل بنے۔ انا للہ و ان الیہ راجعون۔
 ہوائی جنگی معرکوں کا جب بھی تذکرہ ہو گا تو ائیر چیف مارشل مصحف علی میر کی جنگجویانہ صلاحیتوں ، جنگی چالوں اور جرآت کردار  کو شمار کیے بغیر بات اْدھوری رہے گی۔  ائیر چیف مارشل مصحف علی میر پیشہ ور سپاہی تھے۔ نمود و نمائش اور بناوٹی طرز و طریقِ سے مکمل بے نیاز ۔ ان کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے ماتحتوں اور عملے کے دیگر افراد کو واقعتاً آہنی ہاتھوں سے گرفت میں رکھتے تھے مگر ریشمی دستانے پہن کر وہ  سرکاری میٹنگز  اور دیگر اجتماعات  میں اپنی بات  سادہ  الفاظ اور براہ راست واضح انداز  میں ایسے  کرتے تھے کہ انہیں وضاحت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی  تھی۔ سننے والے کو بھی یقین ہوتا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں بلا ضرورت اور بے محل نہیں ھے۔ اگر کوئی بولتے ہوئے   لمبی بات کرنے لگتا تو مصحف میر کہتے یار کہانیاں نہیں کام کی اور اصل بات بتاو۔  لہذا لکھنے والے چوکنے ہو کر  جلد جلد نوٹ لیتے تھے۔  وہ مثالی کھلاڑی تھے۔ گالف ، کرکٹ، ہاکی  ٹینس باسکٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ اس لیے ان کا مزاج کھلا ڈھلا تھا۔  پی اے ایف ،   بڈا بیر پشاور میں  ان کے گھر کے سامنے ایک کھلا گراؤنڈ تھا۔ ہم اس میں بیس بال کھیلا کرتے تھے۔ میر صاحب تب گروپ کیپٹن تھے۔ ایک ٹیم کی کپتانی میر صاحب کرتے اور دوسری ٹیم کے کپتان ائیر ہیڈکوارٹرز  یونٹ کے کمانڈر گروپ کیپٹن سبحان شاد ہوا کرتے تھے۔  ان کے تیسرے دوست ۔گروپ کیپٹن خدا بخش ملک ہوتے تھے جو کہ بھی واقعی پی اے ایف کے قابل فخر سرمایہ تھے جن کے سامنے احترام ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔ ملک خفا بخش کھیل میں حصہ تو نہیں لیتے تھے ۔گر وہ کھیل کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ۔  مجھے گراؤنڈ میں  دیکھتے تو سر مصحف میر حریف کپتان کو کہتے " ہمارا تو  اوپنر موجود ھے " کہاں ہے آپ کا اوپنر۔
  اتوار اور چھٹی کے دن خوب  میدان سجتا ، میچ  کھیلا جاتا اور کھلاڑیوں کو  بڑی مزے دار ریفریشمنٹ کرائی جاتی تھی۔ سر مصحف میر پڑھائی کے بڑے شوقین تھے۔ ان کی گاڑی میں دو تین کتابیں موجود ہوتی تھیں جو وہ سفر کرتے پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن ان سے میرا سامنا ائیر ہیڈ کوارٹرز کی لائبریری کے دروازے پر ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں INTERNATIONAL JEWS 
 AND  STORY OF PHILOSOPHY BY WILL DURANT دیکھ کر بولے  INTERNATIONAL JEWS بہت ہی توجہ سے پڑھنا ۔ It is very informative book for us , the Muslims..مزید ہدایت کرتے بولے "  روزانہ ایک گھنٹہ یا کم از کم آدھا گھنٹہ لائبریری کے لیے وقف کر کے  رکھو۔ ۔مطالعہ آدمی می  اندرونی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کا ظاہر بھی بدل دیتا ھے۔ READING  CONTAINS PLEASURE..۔انہیں خانیوال اور عبدالحکیم کے علاقوں میں زرعی زمین۔ الاٹ ہوئی تھی۔ ریوینیو REVENUE DEPARTMENT  کے ساتھ  سارا بندوست  کرنا پی اے ایف  کے  ڈائریکٹوریٹ آف  ویلفئیر  کا کام تھا ۔راقم ان دنوں ڈائریکٹر ویلفیئر تھا۔ ایک دن فون پر اطلاع ملی ڈائریکٹر جنرل پی اے سی بات کرنا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا ملوائیے۔ مصحف میر صاحب بولے " او منیر اپنے دفتر میں میرا انتظار کرو میں ا رہا ہوں ۔" میں ایدھر اسلام آباد میں ہوں ۔ " تھوڑی دیر کے بعد وہ تشریف لائے تو بیٹھتے ہی کہنے لگے کافی پلاؤ اور مجھے بتاؤ میری زمین کے بارے مجھے کیا کچھ کرنا ھے۔ میں نے سابق  تعلق اور حوالے سے جواب دیا سر آپ نے کچھ نہیں کرنا ، آپ کا"  اوپنر "موجود ھے۔ آپ نے مطلوبہ ذاتی  دستاویزات مجھے دینا ھے ، باقی کام ہماری ڈائرکٹوریٹ کرے گی۔ آپ کو مطلع کر دیا جائے گا کہ آپ کب قبضہ لینے تشریف لائیں۔  اس کے سینے پر تمغہ جات کی قطار، تمغہ بسالت، ستارہ امتیاز،ہلال امتیاز اور نشان امتیاز  ان کی عسکری قیادت کے اعلیٰ معیار  کی گواہی دیتے تھے۔  اب مصحف علی میر اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا قابلِ فخر  سپاہیانہ کردار  اور روایت زندہ ہیں اور انشاللہ زندہ رہیں گے۔ 
  اللّٰہ الرحمٰن ان کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے: آمین

ای پیپر دی نیشن