بارکھان: رہائی کی اپیل کرنے والی 2 بیٹوں سمیت قتل، کوئٹہ میں کھیتران کیخلاف دھرنا 


کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے قریب کنویں سے خاتون سمیت تین افراد کی لاشیں ملنے کے حوالے سے مزید تفصیلات سامنے آگئیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں موجود خاتون مبینہ طور پر اب جاں بحق ہوچکی ہے اور اس کی نعش کنویں سے ملی ہے۔ ویڈیو میں گراں ناز نامی خاتون نے قرآن ہاتھ میں لیکر دہائیاں دیں۔ نجی جیل سے رہائی کی اپیلیں کیں، کہا وہ بیٹی اور بیٹوں سمیت قید ہے، رہائی دلائی جائے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے میرے رب کی قسم ہے، سردار عبدالرحمان کھیتران (صوبائی وزیر)  نے مجھے جیل میں قیدکیا ہوا ہے، میری بیٹی کے ساتھ ہر روز  زیادتی کر رہا ہے، میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے، ہمیں کوئی آزاد کرائے۔ ویڈیو  وائرل ہوئی تو خاتون نجی جیل سے نہیں بلکہ زندگی کی قید سے ہی رہا ہوگئی، خاتون اور اس کے اپنے دو بیٹوں کی تشدد زدہ نعشیں  بارکھان کے کنویں سے برآمد ہوئیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ تینوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جبکہ خاتون کے چہرے کو تیزاب ڈال کر مسخ کیا گیا۔ خاتون کے شوہر خان محمد مری نے ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ جان کے خوف سے روپوش ہے، کنویں سے ملنے والی نعشیں اس کی بیوی اور بیٹوں کی ہیں، اب بھی اس کے 4 بیٹے اور  ایک بیٹی عبدالرحمان کھیتران کی قید میں ہیں۔ دوسری جانب کوہلو پولیس کی بے حسی بھی سامنے آئی ہے، لاشیں ملنے پر نہ ایف آئی آر کاٹی اور نہ ہی میڈیکل کرایا، مقامی مری قبائل نے نماز جنازہ پڑھی۔ اس حوالے سے بلوچستان کے وزیرمواصلات عبدالرحمان کھیتران نے 3 افراد کے قتل اور نجی جیل کے الزام کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی جیل اور 3 افراد کے قتل کا الزام ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔ عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ میرے گھر پرگزشتہ دور حکومت میں تلاشی لی گئی، جیل ہوتی تو پتا چل جاتا، اب بھی اگر کسی کو شک ہے تو میرے گھر میں آکر دیکھ سکتا ہے، یہ بھی کہا کہ انہیں علاقائی سیاست کے حق سے محروم رکھنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، بعض عناصر علاقے کا امن خراب کرنے کے لیے میرے خلاف سازش کر رہے ہیں، بدنام کرنے کی سازش کے خلاف عدالت سے رجوع کروں گا۔ پولیس کے مطابق مقتول خاتون کی شناخت 45 سالہ گران ناز جبکہ قتل ہونے والے مردوں کی شناخت محمد نوار اور عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی جن کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق خاتون کے شوہر اور بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023ء کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔ مقدمے میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران جو کوہلو بارکھان سے منتخب نمائندے ہیں انہیں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمے کے مدعی  محمد مری نے نجی ٹی وی سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بتایا کہ 2019ء میں سردار عبدالرحمن کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت سات بچوں کو سردار نے نجی جیل  میں قید کر لیا تھا۔ محمد مری خان کا مزید بتانا تھا کہ ان کے مزید پانچ بچے  جن میں عبدالمجید، فرزانہ، عبدالستار، عبدالغفار اور محمد عمران جن کی عمریں 8 سے 20 سال کے درمیان  ہیں  زیر حراست ہیں۔  دریں اثناء پولیس نے صوبائی وزیر مواصلات عبدالرحمان کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ ترجمان پولیس کے مطابق چھاپے کے دوران خواتین پولیس اہلکار بھی موجود تھیں۔ عبدالرحمان کھیتران کے مہمان خانے سمیت گھر کے دیگر حصوں کی تلاشی لی گئی۔ پٹیل باغ میں عبدالرحمان کھیتران کی رہائش گاہ کو جانے والے راستے سیل کر دیئے گئے تھے۔ خان محمد مری کے پانچ بچوں کی بازیابی کیلئے چھاپے مارا گیا۔ واقعہ کی تحقیقات کیلئے  حکومت بلوچستان نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔ جے آئی ٹی 30 دن میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔ اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی،  ڈی آئی جی پولیس لورالائی رینج کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ، سپیشل برانچ  بارکھان کا نمائندہ اور ڈپٹی کمشنر  بارکھان بطور ممبر شامل ہوں گے۔ دوسری طرف ضلع کوہلو سے لائی گئی خاتون سمیت تینوں افراد کی میتیں کوئٹہ میں ریڈ زون کے قریب فیاض سنبل چوک پہنچا دی گئیں ہیں اور مظاہرین نے میتوں کے ہمراہ چوک پر دھرنا دے دیا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لواحقین کو انصاف فرا ہم کیا جائے۔ دھرنے میں مقتولین کے عزیز و اقارب اور مری اتحاد کے عمائدین شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ خاتون اور ان کے دو بچوں کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے خلاف درج کیا جائے، انہیں گرفتار کیا جائے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔ مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نجی جیل میں قید دیگر 5 بچوں کو  بازیاب کرایا جائے، وزیراعظم اس واقعہ کا نوٹس لیں اور چیف جسٹس آف پاکستان سو موٹو  نوٹس لیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں واقعہ کی مذمت کی گئی اور اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ اس افسوسناک واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، حکومت بلوچستان کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ اجلاس میں  ایصال ثواب کیلئے فاتحہ بھی کی گئی۔ اس موقع پرصوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ ایوان میں صوبائی وزیر داخلہ ضیاء  لانگو نے کہاکہ  اس واقعے پر حکومت آنکھیں بند نہیں کرے گی، ہم کسی دباؤ کا شکار نہیں ہوں گے، مظلوموں کو انصاف دلائیں گے۔ قبل ازیں  سردار عبدالرحمان کھیتران نے الزامات رد کردیئے  اور اپنے ایک بیٹے انعام شاہ پر سازش کا الزام لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی نے خاتون سے بیان ریکارڈ کروایا، وہ سردار بننا چاہتا ہے۔ سردار کھیتران نے کہا کہ تحقیقات میں پیشی کیلئے تیار ہیں، استعفیٰ نہیں دوں گا۔ جبکہ ڈی آئی جی لورالائی نے بارکھان واقعہ کی ابتدائی رپورٹ آئی جی کو بھجوا دی۔ رپورٹ کے مطابق نعشیں ضلع بارکھان کے علاقے سوٹمن میں غیر آباد کنویں سے ملیں۔ شناخت اور قانونی کارروائی کے بعد لاشیں عبدالقیوم بجارانی کے حوالے کیں۔ قیوم بجارانی کے مطابق خان محمد مری نے 18 جنوری کو ایک درخواست دی  تھی، مؤقف تھا کہ اس کی بیوی، بچے عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں ہیں۔ پولیس نے مغویوں کی بازیابی کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے۔ مغویان سے متعلق کوئی ٹھوس شواہد نہ مل سکے۔ لواحقین کی جانب سے مقدمہ کرکے ملزمان کیخلاف کارروائی کی جائے  گی۔ ڈی آئی جی لورا لائی نے کہا کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن