کراچی ( اسٹاف رپورٹر)سندھ اسمبلی نے منگل کو اپنے اجلاس میںپرائیوٹ ممبر ز ڈے کا معمول کا ایجنڈا معطل کرکے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ،قرارداد پیپلزپارٹی کی ہیرسوہو اورماروی فصیح نے پیش کی تھی ۔قرارداد پیش کرتے ہوئے ہیر اسماعیل سوہو نے مطالبہ کیا کہ مادری زبانوںکو نصاب کا لازمی حصہ بنایاجائے اورپاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بل موجود ہے ،اس بل کو منظور کرایا جائے۔انہوں نے عالمی زبان کے دن کے موقع پر سندھی لینگویج اتھارٹی کی جانب سے کانفرنس منعقد کرنے پراسے خراج تحسین پیش کیا۔محرک کا کہنا تھا کہ دنیا کتنی بھی ماڈرن ہوجائے۔ہمیں فخر ہے ہم ایک ایسی زبان سے وابستہ ہیں جو 5 ہزار سال پرانی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ہمیں سندھی بولنے پر ہمیشہ فخر ہوا ہے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ شہر کے اسکولوں میں سندھی زبان نہیں بولی جاتی۔اس زبان کو رائج کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے محمد حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص کو اپنی مادری زبان پر فخر ہوتا ہے ،بچے کو پہلا سبق اپنی مادری زبان سے ملتا ہے ،لوگ جس طرح اپنی زبان کی عزت چاہتے ہیں،اسی طرح دوسروں کی زبان کی بھی عزت کرنی چاہیے۔ جی ڈی اے کے نند کمار نے بھی مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر قرارداد پیش کی۔ملک میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ان زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔پیپلز پارٹی کی ماروی فصیح کا کہنا تھا کہ ہم کو اپنی مادری زبان پر فخر ہے۔ہمارے ہمسایہ ملک میں کئی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے ۔پی ٹی آئی کے سنجے گھنگوانی نے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی میں جو بل موجود ہے اس کو منظور کیا جائے۔پیپلز پارٹی کی کلثوم چانڈیو نے کہا کہ ہمارے بچے جب اسکول جاتے ہیں تو ان کو استاد سندھی زبان پڑھانے سے قاصر ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہم سندھی ہیں۔صوبائی وزیر اسماعیل راہونے اپنی تقریر میں کہا کہ زبانیں سب پیاری ہوتی ہیں۔اگر ہمیں سندھ سے محبت ہے توہمیں دیگر زبانیں بھی سکیھنی چاہیں۔ہر زبان کو قومی زبان کا درجہ ہونا چاہیے۔پاکستان میں اس وقت 60 زبانیں ہیں۔بہت سی زبانوں کا آج وجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ زبانوں کا استحصال ہوا ہے۔آج دنیا نے بنگلہ دیش کی زبان کو تسلیم کیا۔ہم نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔اگر ہم ا1952 میں ان کی قومی زبان تسلیم کرتے تو آج وہ ہمارا حصہ ہوتے۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جو بل موجود ہے۔اس میں دیگر جماعتوں نے دلچسپی نہیں لی۔اس بل کے منظور ہونے سے دیگر زبانوں کا درجہ کم نہیں ہوگا۔تمام زبانیں ہماری ہیں۔صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بنگلہ دیش کی زبان کو تسلیم نہیں کیا گیا۔طلبا نے اس پر احتجاج کیا۔ڈھاکہ میں ان پر پولیس گردی کی گئی۔یہیں سے بنیاد پڑی بنگلہ دیش کے الگ ہونے کی۔سندھ اسمبلی صوبے کے لوگوں کی نمائندہ ہے۔1857 میں کمشنر نے لیٹر نکالا کہ تمام کلرک سندھی کا امتحان پاس کرے۔جو سندھی کا امتحان پاس نہیں کرتا تھا اس کو پوسٹنگ نہیں ملتی تھی۔انہوں نے کہا کہ چار صوبوں کی چار زبانیں ہیں۔ان کو قومی زبانوں کو درجہ دیا جائے۔سردار شاہ نے بتایا کہ بھارت میں 26 زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔سندھی اردو اسکولوں میں لازمی طور پر پڑھائی جائے گی۔وزیر تعلیم نے کہا کہ 15ہزار نجی اسکول رجسٹرڈ ہیں۔سندھی اردو لینگویج سینٹر قائم کررہے ہیں،آج جو بھی زبان موجود ہے۔اس کی عزت کی جائے۔ریاست بنگلہ دیش سے سبق سیکھے۔ سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ72میں نے ایوان میں قانون پیش کیا کہ سندھی زبان کو ترجیح دی جائے ۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے نہیں پوچھا۔اگلے روز اخبارات میں آیا کہ اردو کا جنازہ ہے، زرا دھوم سے نکلے۔ہنگامے ہوئے تو بھٹو نے ہمیں طلب کیا۔یہ قرارداد کیوں منظور کرائی۔جس پر میں نے انہیں بتایا کہ سندھی 5 ہزار سال پرانی زبان ہے۔بھٹو کے ساتھ بیٹھے لوگوں نے مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔لیکن میں اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔انہوں نے کہا کہ اردو کو پیپلز پارٹی نے پورے پاکستان میں متعارف کرایا۔اس وقت کے وزیر قانون نے کہا کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی تھیلوگوں نے ہمیں غلط بریف کیا تھا۔اس کے بعد اس اخبار کے ایڈیٹر بھٹو صاحب کے پاس گئے کہا یہ غلطی سے ہوا ہے۔یہ قرارداد جذباتی نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔قرار داد کو متفقہ کو طور پر منظور کرلیا گیا۔ جس کے بعدسندھ اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔