پاکستانی معیشت کی تباہی


ہمارا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960ءسے لیکر 1965ءتک انتہائی شاندار رہا ہماری معاشی ترقی 6.2 فیصد رہی جو چاپان کے بعد جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ تھی قومی آمدنی میں 20 فیصد اور برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا پھر بھٹو اور جنرل اختر نے ایوب خان سے پوچھے بغیر کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کر وا دیا خیال تھا کہ محدود پراکسی جنگ کشمیر میں ہی رہے گی (بعد میں یہی کام مشرف نے کیا اور نواز شریف کی منظوری کے بغیر کارگل کا آپریشن کروا دیا) مگر ہندوستان نے کھلی جنگ کا آغاز لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر کر دیا ہم نے بمشکل اپنا دفاع کیا۔ کون جیتا کون ہارا اس پر بات کرنی مشکل مگر دنیا نے ہماری معاشی مدد بند کر دی اور اس کے بعد ہمارا کوئی ترقیاتی منصوبہ اپنے اہداف پورے نہ کرسکا ۔مشرقی پاکستان الگ ہو گیا 1973ءمیں بھٹو نے روپے کی قدر میں 131 فیصد کمی کی ایک ڈالر جو 3.40 روپے کا تھا 11 روپے کا ہو گیا بعد میں ڈالر 10 فیصد کمی سے 9.90 روپے کا ہو گیا۔ اس کے بعد ہم امریکہ کے کرائے کے قاتل بن گئے ۔سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں ۔ پاکستان کلاشنکوف اور ہیروین کلچر کا شکار ہو گیا ۔
 افغانستان کے جہاد کی بدولت سرحد کے دونوں طرف ملا بھی طاقتور سٹیس کو کا اہم شراکت دار بن گیا اور آج تک ہے سوویت یونین ٹوٹ گیا اور گرم پانیوں تک نہ پہنچ سکا مگر ہم چین کے قرضوں میں پھنس گئے ۔ سری لنکا کی طرح گودار پورٹ بیچےں گے تو چین قرض کی ادائیگی میں رعایت دے گا۔ امریکہ اور عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو چین کا قرض اتارنے کے لیے ڈالرز نہیں دے سکتے ۔
 چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی ہے مگر وہ ہمارے معمولی قرضے بھی ری شیڈول کرنے سے اجتناب کر رہا ۔جب نواز شریف اور پروفیسر احسن اقبال 40 بلین ڈالرز سی پیک پراجیکٹس پر قرضے لے رہے تھے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں دیتا ۔مہنگے بجلی کے پلانٹس 17 فیصد چائنیز بنکوں سے تو لگ گئے مگر کوئلہ گیس اور ڈیزل کی 40 ارب ڈالرز کی امپورٹ اور اوپر سے پیپلز پارٹی کے مہنگے آئی پی پیز کے معاہد ے جو طاقتور اشرافیہ کے بے نامی ملکیت ہیں بجلی کی نیشنل گرڈ کو ضرورت ہو یا نہ ہو کیپسٹی چار جز ڈالرز میں دینے ہیں کیونکہ پاور پلانٹس، موٹر ویز اور ترکی کی کمپنیوں کو ویسٹ مینجمنٹ کے کنٹریکٹس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ آپ کے بیرونی ممالک میں آپ کے بچوں، آف شور کمپنیوں کے اکاونٹس میں جمع کرا دیتی ہیں اور آپ ان کی مہنگی بڈز قبول کر کے عوام سے ان کو وصولی کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس سب کو حصہ بقدر جثہ مل جاتا ہے اگر مزید طاقت ور لوگوں کو اکاموڈیٹ نہ کیا جائے تو پھر ریکوڈک کا پراجیکٹ رک جاتا ہے ۔اہل اقتدار کرپشن کو برا کہتے ہیں اور دھیلے کی کرپشن نہیں کرتے ہیں مگر کک بیکس اور کمیشن سربراہ مملکت سے لے کر پٹواری اور چیف افسروں اور اکاو¿نٹ افسروں کا جائز حق ہوتا ہے۔
 9/11 کے بعد ہم پھر امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن گئے مشرف نے اکانومی کو مستحکم رکھا ۔بیرونی قرضے 6000 ارب تک محدود رہے گروتھ ریٹ 6سے 8 فیصد رہا ڈالر 60 روپے پر پانچ سال رہا پھر اس کے بعد پیپلز پارٹی اور نواز شریف نے باہر سے بے تحاشا قرض لیے۔ سرمایہ کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے باہر منتقل کیا۔ مشرف نے وار آن ٹیرر کے نام پر امریکہ کو انگیج رکھا اور ڈالرز آرہے تھے ۔افغان اشرافیہ بھی ا ن ڈالرز سے پاکستان میں جائیدادیں خرید رہے تھے ۔ ہم خوش ہو گئے کہ ہم نے اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر پہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکہ کو بھی شکست دے دی مگر ہم سے ڈالر روٹھ گیا کوئی دوست اور بردار اسلامی ملک ہماری مدد نہیں کر رہا ہمارے افغانی بھائی بھاری مقدار میں ڈالرز روزانہ اپنے ملک لے جا رہے ہیں اور ان کے پیٹی بھائی یہاں دھماکے کررہے تا کہ نہ تو یہاں بیرونی سرمایہ کاری ہو اور نہ ہی تارکین وطن یہاں سرمایہ کاری کے لیے زرمبادلہ بھیجیں اور اب آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کر کے 170 ارب کے ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی 38 فیصد پر جا پہنچی ہے۔ 
اسٹیٹ بنک کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 2022ءمیں قرضوں کے حجم میں 12 ہزار 143 ارب کے اضافہ سے کل قرضے 63 ہزار 868 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں ان میں سے 130 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے ہیں اگر اشرافیہ باہر سے ڈالرز پاکستان میں لے آئے اور پاکستان میں کالا دھن جو ایک اندازے کے مطابق 20 ارب ڈالر ہے حکومت کو ہی ایمنسٹی سکیم دے کر نکلوا لے تو بات بن سکتی ہے مگر لوگ مسلم لیگ کی حکومت پر ڈالرز کے معاملے میں اعتبار کر نے پر تیار نہیں ۔ 
قرض اتارو ملک سنوارو کے پیسے کدھر گئے ہیں کچھ پتہ نہیں ۔شہباز شریف کی گورنس اور اسحاق ڈار کی معاشی مہارت کی قلعی کھل گئی ہے ۔ وزیر اعظم نے خود ہی کفایت شعار کمیٹی بنائی ہے جس نے 1000 ارب بچانے کی تجویز پیش کی ہے کہ ڈریکولا نما اشرافیہ کی مراعات کم کی جائیں۔ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کہ ججوں اور بیوروکریٹس کو تین تین پلاٹس الاٹ نہ کیے جائیں کے خلاف سپریم کورٹ میں چیلنج کر رہی ہے شہباز شریف کی عجیب منطق ہے کہ کفا یت شعار کمیٹی خود سٹیک ہولڈرز سے بات کرے اور انہیں مراعات کم کرنے پر قائل کرے ۔ کون سا شخص اپنی مراعات اور مالی فوائد میں سرکار سے کٹوتی پر رضا کارانہ تیار ہو گا پاکستان کے حکمرانوں کے فیصلوں کی گنگا الٹی بہتی ہے ۔
اس شہر آشوب میں آنکھیں ہی نہیں کافی 
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
................................ ( ختم شد )

ای پیپر دی نیشن