تین اہم اور سلگتے ملکی مسائل


 فوری توجہ کے حامل زیرِ تحریر تین اہم اور سلگتے ملکی مسائل پر قومی ےکجہتی کا فقدان ہے ، جن کو تمام سیاسی اکابرین اور ملک کے پالیسی ساز ادارے ثانوی حیثیت بھی نہیں دیتے ، جب کہ ان معاملات کی وجہ سے ملک میں مہنگائی، انتشار، افراتفری، اور معاشی بحران سے ملکی وحدانیت کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں ۔
 عوامی مسائل میں ذہنی کوفت کا سبب پہلا مسئلہ مہنگائی کا ہے جو کہ بیرونی قرضوں پر انحصارہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان اُمڈ آیا ہے کہ عوام جی رہے ہیں تڑپ ٹرپ کراور مررہے ہیں سسک سسک کر، اسکے باوجود اربابِ اقتدار متبادل ذرائع کو بروئے کار لانے کی کوئی تدبیر کرنے سے قاصر ہیں ،قرضے ملکی مسائل کا قطعاًً حل نہیں ہیں ،ہم کس قدر بد قسمت ہیں کہ سر زمینِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہاءقدرتی وسائل عطا کر رکھے ہیں ، جس میں ریکو ڈک سونے کا خزانہ ہے جس سے ہر سال تقریباً سات ہزار آٹھ سو کلو گرام سونا اور 19 کروڑ کلو گرام تک تانبے کی پیداوارکا تخمینہ ہے ، ریکوڈک دنیا کا پانچواں سونے کا بڑا ذخیرہ ہے ، جہاں تانبے کے وسیع ذخائر بھی ہیں ، ریکوڈک کے علاوہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی قدرتی وسائل کی کمی نہیں جن میں معدنیات، جنگلات ایسے وسائل ہیں جن سے ملکی معاشی ترقی ممکن ہے ، لیکن اغیار کی غلامی میں جکڑے ملک کے اقلیتی افراد اقتدار میں رہتے ہوئے ملکی وسائل کو لوٹ کر کھا رہے ہیں جب کہ ملک کی اکثریت کما کے کھانے والوں کی ہے ۔ 
مہنگائی پاکستان کا ہی نہیں یہ ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں مہنگائی کے عوامل دنیا سے مختلف ہیں یہاں مہنگائی کچھ تو خود ساختہ ہے اور کچھ سے زیادہ انتظامی کمزوری ہے قیمتوں پر انتظامیہ کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اشیاءخورونوش کی قیمتیں غریب کی قوت خرید سے بہت تجاوز کر گئی ہیں، حکومت پٹرول کی قیمتوں کو بڑھانے کا ابھی سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ مارکیٹوں میں خور ونوش کی تمام اشیاءکی قیمتیں پلک جھپکتے ہی بڑھ جاتی ہیں ، قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے بے بس اور لا چار ہیں ، آئی ایم ایف نے اس سلسلے میں حکومت کو بے بس اور لاچار کر دیا ہے ، قرض کے حصول کےلئے مہنگائی مجبوری بن گئی ہے ۔
 دوسرا سلگتا ہوا مسئلہ معاشی بحران کا ہے پاکستان اس وقت معاشی بد حالی کا بُری طرح شکار ہے ،ملک کے حالات کو جس نہج پر لے جایا گیا ہے وہاں سے واپسی کی امید مسدود ہو کر رہ گئی ہے ، جو بھی منصوبہ بندیاں کی گئیں ان سے ملک معاشی ابتری کی دلدل میں دھنس گیا ، اس دلدل سے نکلنا اب آسان نہیں رہا کیونکہ قرض لوٹانے کیلئے حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے ، اس سے لیکر اسی کو دینے سے معاشی استحکام ممکن نہیں اس سے معاشی بدحالی کے علاوہ ہر سال تجارتی خسارہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ درآمدات کی بہتات اور برآمدات میں کمی بھی معاشی ابتری کی ایک بڑی وجہ ہے، جس سے ادائیگیوں میں توازن بر قرارنہیں رکھا جا سکتا ، ملک کے موجودہ معاشی حالات قرض در قرض اور قرض کے عوض قرض کی ادائیگیاںعا رضی اقدامات ہیںا یسے اقدامات سے کبھی بھی معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی ملک میں تجربات ، دوہرا نظام اور اداروں کی مداخلت نے ملک کی معیشت کو سخت نقصان سے دو چار کیا، سرکاری اداروں کے خسارے نے ملک کی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے ان اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے کسی بھی دورِ حکومت میں اصلاحی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان اداروں میں قومی صنعتی منصوبہ بندی کی جاتی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا لہذا اب ان اداروں کو نجی کمپنیوں یا صوبوں کے سپرد کردیا جائے۔ تاہم عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس کےلئے قومی ذمہ داری کے احساس اور ملی جذبے سے سرشار ماہرین ِ معاشیات کی خدمات حاصل کی جائیں جو متفقہ طور پر معاشی منصوبندی کرکے ہنگامی بنیادوں پر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی راہ پر گامزن کریں ۔ 
 اس معاشی بحران میں سیاسی انتشار اور افراتفری انتہائی معنی خیز ہے جسے سمجھنے اور سلجھانے کے لئے قومی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے ۔ منفی سوچ کے حامل افراد جو کہ ملک و قوم پر عذاب بن گئے ہیں ان کے غیردانشمندانہ اور سخت رویے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک کو دیوالیہ بنانے کی مذموم کوششوں میں ہیں ، قوم معاشی بحران کا شکار ہو سیلاب میں ڈوبی ہو یا مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہویہ ایک خاص طبقہ ہے ، جسے عوام اور ملک کا کچھ ادراک نہیں ، اقوام متحدہ اور دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کو تشویشناک قرار دے رہے ہیں ملک کا زرِ مبادلہ انتہائی کم سطح پر چلا گیا ہے ، دنیااس تشویشناک صورتحال کا ادراک کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں انتشار اور افراتفری کی سیاست مثبت رویوں کے بر عکس ہے ، انتشار کی سیاست کرنےوالوں کے عزائم کا جاننا وقت کی اہم ضرورت ہے ، سیاسی اور انتقامی کیسز معاملے کا قطعی حل نہیں منفی اور انتشار کی سیاست کو قانونی شکنجے کی ضرورت ہے جس پر حکومتِ وقت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ 
 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...