پاکستان کی تاریخ کے موجودہ سنگین ترین معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے 13 جنوری 2023 ءکو ایک قومی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ سادگی اور کفایت شعاری کے سلسلے میں تجاویز اور سفارشات وفاقی حکومت کو پیش کرے- اس قومی کمیٹی کا سربراہ پاکستان کے نامور دیانت دار سابق سینئر سول سرونٹ محترم ناصر محمود کھوسہ کو نامزد کیا گیا تھا -تحریک انصاف نے محترم ناصر کھوسہ کا نام نگران وزیر اعلی پنجاب کے پینل میں شامل کیا تھا مگر انہوں نے معذرت کرلی تھی اگر وہ معذرت نہ کرتے تو مسلم لیگ نون بھی ان کو نگران وزیر اعلی پنجاب تسلیم کر لیتی مگر انہوں نے موجودہ سنگین سیاسی و آئینی بحران کی روشنی میں اقتدار و اختیار حاصل کرنے کی بجائے اپنی زندگی بھر کی نیک نامی کو بچانا مناسب سمجھا - سادگی و کفایت شعاری کی قومی کمیٹی میں معروف اکانومسٹ ڈاکٹر قیصر بنگالی اور اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیداروں کو شامل کیا گیا- انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق اس قومی کمیٹی نے حب الوطنی کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مالیاتی بحران کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے دو روز طویل اجلاس کر کے اپنی سفارشات 19 جنوری 2023 ءکو حکومت کے سپرد کر دیں-وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور بے حسی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور ابھی تک ان انقلابی نوعیت کی سفارشات کو کابینہ میں منظوری کے لیے بھی پیش نہیں کیا گیا-
اس قومی کمیٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حکومت کو تجاویز پیش کی جائیں کہ سرکاری اخراجات کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے اور بجٹ کے خسارے پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے مالیاتی نظم وضبط پیدا کرنے کے لیے ریونیو میں کیسے اضافہ کیا جا سکتا ہے-اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ وہ حکومت کے سائز کا جائزہ لے اور وزارتوں سے تجاویز بھی حاصل کرے- قومی کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجاویز پیش کی ہیں کہ کابینہ میں صرف 30 ارکان کو شامل کیا جائے-ان کے علاوہ جو وزیر مملکت معاونین اور مشیر نامزد کیے جائیں وہ عوامی بہبود کے لیے کام کریں اور قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات وصول نہ کریں- قومی کمیٹی نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے کابینہ کا سائز 11 فیصد کی بجائے 7.5 فیصد مقرر کیا جائے-موجودہ حکومت رضاکارانہ طور پر پر اپنی کابینہ کا سائز کم کردے-سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے-پاکستان کے تمام وفاقی و صوبائی محکموں کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی 15 فیصد کمی کی جائے-
پاکستان کے موجودہ بجٹ کو 30 جون 2024 ءتک منجمد کر دیا جائے-نئی کاریں خریدنے پر مکمل پابندی لگا دی جائے-تمام الاو¿نسز میں 25 فیصد کی کٹوتی کی جائے-نئے انتظامی یونٹ قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے - پروٹوکول پر نظر ثانی کی جائے اور پروٹوکول اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے- نئی ملازمتوں پر جون 2024 ءتک پابندی عائد کر دی جائے-آئی ایس آئی اور آئی بی کے سیکرٹ سروس فنڈز منجمد کر دیئے جائیں- غیر ضروری بیرونی دوروں پر پابندی لگا دی جائے- پاکستان کے سفارت خانوں میں بھی نئی ملازمتوں پر پابندی لگا دی جائے اور سفارت خانوں کا بجٹ 15 فیصد کم کر دیا جائے-کسی استثنی کے بغیر پنشن کی حد پانچ لاکھ روپے مقرر کی جائے-یاد رہے کہ اس وقت کئی سینئر ریٹائرڈ سول سرونٹس اور جج پندرہ لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پنشن اور مراعات قومی خزانے سے وصول کر رہے ہیں-
انٹرٹینمنٹ الاو¿نس ختم کردیا جائے - سبسڈی صرف غریب ترین عوام کو دی جائے - اراکین اسمبلی کے ترقیاتی بجٹ پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے-بجلی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے مارکیٹیں 8 بجے رات بند کر دی جائیں- سول عسکری ملازمین اور عدالت کے ججوں کو صرف ایک پلاٹ الاٹ کیا جائے ایک سے زیادہ پلاٹ جس کے پاس بھی ہیں ان کو منسوخ کر دیا جائے- واپڈا کے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی مفت بجلی کی سہولت ختم کر دی جائے-قومی کمیٹی نے اپنی تجاویز میں یہ بھی سفارش کی ہے کہ تجارت حکومت کا کام نہیں ہے لہذا ایسی کارپوریشنز کی نجکاری کی جائے جو نقصان پر چل رہی ہیں اور جن کو چلانے کے لیے حکومت اربوں روپے سالانہ خرچ کر رہی ہے-قومی کمیٹی نے یہ سفارش بھی پیش کی ہے کہ پاک فوج کا غیر دفاعی انتظامی بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے-
قومی کمیٹی کی انقلابی اور جوہری نوعیت کی سفارشات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر پاکستان کی وفاقی حکومت سنجیدگی اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہنگامی طور پر ان سفارشات پر عملدرآمد کر دے تو موجودہ مالیاتی بحران پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے- سوشل میڈیا کے مطابق پاکستان کے پڑھے لکھے محب الوطن شہری پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے کو ای میلز روانہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں لہذا ان کی خواہشات کے مطابق زراعت پر انکم ٹیکس عائد کیا جائے- جائیداد کی خریدوفروخت پر پانچ فیصد ٹیکس لگایا جائے- پاکستان کے ہر دکاندار سے دکان کے سائز کے مطابق ٹیکس لگایا جائے - نان فائلر ٹیکس کی کیٹیگری ختم کی جائے اور امپورٹ کو محدود کیا جائے افغانستان جانے والوں کو صرف 200 ڈالر اور دیگر ممالک میں جانے والوں کو 2000 ڈالر لے کر جانے کی اجازت ہو-پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں ان میں سے صرف 5 فیصد رکھ کر باقی نیلام کر دی جائیں- سرکاری ملازمین کو صرف تنخواہیں دی جائیں اور ان کے پٹرول بجلی اور دیگر الاو¿نسز مکمل طور پر ختم کیے جائیں- پاکستان کے کسی سرکاری ملازم کو چار لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ ادا نہ کی جائے - انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ایک جانب تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف قوم کو یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہم سب دیوالیہ پاکستان کے شہری بن چکے ہیں اور دوسری جانب آئین کے مطابق پاکستان میں فنانشل ایمرجنسی لگانے سے گریز کیا جا رہا ہے- حالانکہ 24 کروڑ پاکستانی شہریوں کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کے مطابق ہنگامی طور پر فنانشل ایمرجنسی نافذ کر کے مالیاتی نظم و ضبط پیدا کیا جائے اور عوام کو مہنگائی کے شکنجے سے باہر نکالا جائے- مالیاتی بحران پر قابو پا کر پاکستان کی اندرونی و بیرونی سلامتی کو یقینی بنایا جائے-سپریم کورٹ نے محترم جسٹس ثاقب نثار اور محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پولیس اصلاحات کے لیے جو سفارشات مرتب کروائی تھیں-
ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ٹاسک فورس نے جو ادارہ جاتی اصلاحات کرنے کی سفارشات تیار کی تھیں لاہور ہائیکورٹ کے ایماءپر اور سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محترم جسٹس انور الحق کے سرگرم اور پرعزم کردار کی بناءپر پنجاب کی اسمبلی نے جو ثالثی ایکٹ (اے ڈی آر ایکٹ) منظور کیا تھا ان پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا گیا- ماضی کے افسوسناک تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کی قومی کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کی ہیں ان پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جائے گا - اسی لئے پاکستان کے سنجیدہ محب الوطن حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ دو سال کی قومی عبوری حکومت قائم کی جائے جو قومی اور عوامی مفاد پر مبنی اصلاحات پر عملدرآمد کرانے اور سیاسی و معاشی میثاق کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرے-