ڈاکٹر سلیم اختر
1948 اور 1949 کے درمیان بھارتی فوج کے دوسرے کمانڈر اِن چیف کے طور پر خدمات انجام دینے والے جنرل سر فرانسس رابرٹ رائے بوچر اور جواہر لال نہرو سمیت سرکاری عہدیداروں کے درمیان بات چیت پر مشتمل ایک دستاویز تیار کی گئی جسے ’’بوچر پیپرز‘‘ کا نام دیاگیا۔ دو روز قبل برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا گھنائونا چہرہ اس وقت بے نقاب کر دیا جب مودی سرکار نے نہرو حکومت میں کئے گئے سیزفائر اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے وعدوں پر مشتمل دستاویز ’’بوچر پیپرز‘‘ کو منظرعام پر لانے سے روک دیا۔ اس دستاویز کے مطابق بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی اور بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ علیحدہ آئین اور الگ جھنڈے سمیت تمام معاملات پر خود مختاری دی گئی تھی۔ کئی دہائیوں تک کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ان دستاویز کو اہم اقدام کے طور پر تصور کیا جاتا رہا۔ یہ کاغذات بھارت کی وزارت ثقافت کے ماتحت خودمختار ادارے میں رکھے گئے جسے نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کہا جاتا ہے۔
فرانسس رابرٹ رائے پوچر نے بھارتی فوجیوں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر بگڑتی صورتحال کو حل کرنے کیلئے سیاسی نقطہ نظر اپنانے کا مشورہ دیا۔شاید یہی وہ مشورہ تھا جو نہرو کی جانب سے کشمیر کو خصوصی درجہ دینے کا محرک بنا۔ گارجین رپورٹ کے مطابق یہ دستاویز کشمیر میں فوج کے زیراہتمام آپریشنل معاملات اور کشمیر کے حساس سیاسی معاملات پر سینئر حکومتی رہنماؤں کے درمیان خط و کتابت پر مشتمل ہیں۔ ان کاغذات سے پتا چلتا ہے کہ جواہر لال نہرو کشمیر میں فوجی ڈویلپمنٹ سے آگاہ تھے۔جواہر لال نہرو کو اس وقت کے کشمیر کی سیاسی صورتحال کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے 1952 ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ کشمیری عوام کی امنگوں کا احترام کیا جانا چاہیے ،کشمیر کے عوام ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں،ہم خود کو چھری کی نوک پر ان پر مسلط نہیں کر سکتے۔ مگر75 سال گزرنے کے باوجود بھارت نے آج تک کشمیری عوام کو ان کا یہ حق نہیں دیا گیا ۔ الٹا 5 اگست 2019ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 ‘ جس کی رو سے بھارتی یونین میں ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور دفعہ 35۔اے کی رو سے غیرریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے‘ نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں‘ مگر مودی سرکار نے کشمیر کے اس تشخص کو ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین سے متذکرہ شقیں حذف کرکے ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ وادی میں متروکہ وقف کی املاک خریدنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کا حق دے دیا۔ 2020ء کے اوائل میں ایک ڈومیسائل قانون منظور کیا گیا جس کے تحت پہلی بار بھارتی شہریوں کو جموں و کشمیر کا مستقل رہائشی بننے کی اجازت دیدی گئی۔ بھارت ان اقدامات کا مقصد وادی میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے جس کیلئے وہ مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے ‘ نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کرکے شہید کررہا ہے تاکہ وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کی جا سکے۔ اس نے گزشتہ 75 سال سے کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔
بوچر پیپرز کو بھارت کی وزارت خارجہ نے 1970 میں نئی دہلی کے نہرو میوزیم اور لائبریری کے حوالے کیا تھا، جس میں ایک نوٹ کے ساتھ کہا گیا تھا کہ ان دستاویز کو ’’کلاسیفائیڈ‘‘ رکھا جانا چاہیے۔سماجی کارکنوں نے آرٹیکل 370 کے استدلال پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور ان کاغذات کو پبلک کرنے کیلئے کئی بار کوشش کی مگر اسکے جاری ہونے سے خارجہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات کے پیش نظر بھارت سرکار ہمیشہ ان دستاویز کو سامنے لانے سے گریز کرتی رہی۔ بھارتی سماجی کارکن وینکٹیش نائک نے کاغذات کو پبلک کرنے کیلئے بھارتی عدالت میں متعدد اپیلیں دائر کیں، مگر بھارتی عدالتوں نے ان کی اپیلوں کو مسترد کر دیا گیا۔ 2021 ء میں بھارتی انفارمیشن کمشنر نے فیصلہ دیا کہ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرنا قومی مفاد میں ہے لیکن وہ اہم دستاویزات کے افشا کا حکم جاری کرنے میں ناکام رہے۔12 اکتوبر 2022 ء کے ایک خط میں میوزیم اور لائبریری کے سربراہ، نریپیندر مشرا نے بھارتی خارجہ سکریٹری کو لکھا اس میں بھی ان دستاویز کی کلاسیفکیشن کی درخواست کی گئی مگر بھارت سرکار نہ مانی۔بھارت عام طور پر 25 سال کے بعد آرکائیو دستاویزات کی ڈی کلاسیفکیشن کی اجازت دیتا ہے مگر بوچر پیپرز کے معاملے پر بھارتی حکومت ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے دستاویز میں دلیل دی کہ کاغذات کے افشا کو فی الحال روک دیا جانا چاہیے اور تجویز دی کہ حکومت کو ’رائے بوچر پیپرز‘ کی حساسیت اور انکے افشا کئے جانے کے ممکنہ مضمرات کا مزید جائزہ لیا جانا چاہیے۔
بے شک بوچر دستاویز کو منظر عام پر لانا یا نہ لانا بھارت کا اندرونی معاملہ ہے مگر ان دستاویز کا افشا ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسکے ساتھ مظلوم کشمیری عوام کی آزادی جڑی ہوئی ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ 75 سال سے بھارتی مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ بھارت کیخلاف پوری دنیا میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں‘ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور عالمی طاقتوں اور اداروں سے اس کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے مگر اقوام متحدہ سمیت تمام طاقتوں اور انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں کی طرف سے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے‘ اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی نظر آرہی ہے کہ بھارت کو ان طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا ہے۔ افسوس ان مسلم ممالک پر بھی ہے جو بھارت کو اپنی سب سے بڑا تجارتی منڈی تصور کرکے اس کیخلاف آواز اٹھانے سے کتراتے ہیں جبکہ مسلمان ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کی مجرمانہ خاموشی بھی بھارت کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔ اسی لئے بھارت کسی بھی عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ 5اگست 2019ء کو اس نے کشمیر کو بھارتی سٹیٹ یونین میں ضم کرکے اس کا ٹنٹا ہی ختم کر دیا۔ اس انتہائی اقدام کے باوجود بھارت آزادی کے متوالے کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں ناکام ہے۔ بھارت سرکار کا بوچر دستاویز منظرعام پر لانے سے گریز کرنااس بات کا ثبوت ہے کہ جلد یا بدیر بھارت جب بھی ان دستاویز کو منظر عام پر لایا جائیگا‘ اس سے کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو نئی مہمیز ملے گی اور بھارت کو بالآخر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔