حقو ق العباد کے بغیر خوبصورت اسلامی معاشرہ ممکن نہیں


تحریر: محمد عمران الحق ۔ لاہور 
بلاشبہ خوبصورت اسلامی معاشرہ ہے ملک و قوم کی ترقی کی ضمانب ہو سکتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین رائج  ہیں مگر دین ِاسلام کو اِنسانی حقوق کے تحفظ میں سب پر برتری حاصل ہے کیونکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیا بلکہ ان کی ادائیگی نہ کرنے والے کودنیوی و اُخروی طور پر نقصان اور سزا کا مستحق بھی قرار دیا۔حقوق العباد کو جس قدر تفصیل و تاکید سے اسلام نے بیان کیا ہے، یہ اسی کا خاصہ ہے۔قرآن و سنت میں حقوق اللہ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حقوق العباد کو دی گئی ہے۔ حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے حقوق ہیں۔ان حقوق میں والدین، اولاد،زوجین یعنی میاں بیوی، رشتہ دار،یتیم، مسکین، مسافر، ہمسایہ،مالک، نوکر اور قیدی وغیرہ کے انفرادی حقوق کے ساتھ دیگر اجتماعی و معاشرتی حقوق کا وسیع تصور بھی شامل ہے۔
العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔اسلام نے جہاں عام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی بار بار تاکید کی ہے، وہیں پڑوسیوں اور قریبی ودور کے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی، یہاں تک کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں انفرادی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں تاکہ سب کی مشترکہ کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ بنے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی نہایت ضروری ہے۔مخلوق خدا کی مال و جان، عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔آج ہمارے معاشرہ میں یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے کہ معمولی معمولی بات پر رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔ حالانکہ ضرورت ہے کہ ہم رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہوں اور ان کے ساتھ احسان اور اچھا برتائو کریں۔اگر معاشرے کے تمام افراد آپس میں محبت، اخوت اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں تو معاشرہ جنت کا نمونہ نظر آتا ہے۔اگر اسی معاشرے کے چند افراد برائیوں میں مبتلا ہو جائیں تو پورا معاشرہ جہنم کدہ بن جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں سود،رشوت خوری،سفارش،جھوٹ،ملاوٹ،تعصب، اقربا پروری،خیانت اور دیگر سماجی برائیاں عام پائی جاتی ہیں۔سود بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ برائی زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائی جاتی تھی۔ آج ہمارا معاشرہ بھی اسی برائی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ قرآن پاک نے سختی سے اس فعل سے منع کیا ہے۔رشوت خوری بھی ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہے۔ اس نے معاشرے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کسی محکمے میں بھی چلے جائیں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ جائز کام کروانے اور اپنا حق لینے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔غیبت اور چغل خوری بھی ایک معاشرتی بیماری بن چکی ہے۔ غیبت سے مراد کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میںایسی بات کہنا کہ اگر وہی بات اس شخص کے سامنے کی جاتی تو اسے ناگوار گزرتی۔ آج مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی برائی بیان کرتا ہے اور اس کے عیب لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔آج ان برائیوں کی وجہ صرف دین سے دوری ہے۔اللہ کے احکامات اور حضور اکرم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جن دلوں سے اللّٰہ کی محبت، اللّٰہ کا خوف اور آخرت کی یاد نکل جائے وہ غلط کاموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک جگہ صحابہ کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اِس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے، ایک حق والے کو (اُس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اِس کی نیکیوں میں سے (اُس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اِس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (اِن حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) اُن سے لے کر اِس شخص پر ڈال دئیے جائیں گے، اور پھر اُس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)
یہ ہے اِس اُمت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود، حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ خلق خدا کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ دولت، عزت، علم اور جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں ہم کو دی ہیں ان کو بانٹا جائے۔ والدین، رشتہ دار، پڑوسی اور ضرورت مندوں کی خدمت کریں، ان کی مشکلات میں سہارا بنیں، کسی کا مال نہ کھائیں، اپنے ماتحتوں سے ہمدردی کریں اوران کے آرام و ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ حق تو یہ ہے کہ یہ چیزیں اس وقت معلوم ہو سکتی ہیں جب دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ دین میں مجھ سے کیا کیا تقاضے وابستہ ہیں اور یہ جذبہ علماء کرام اور اولیاء کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے جس کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن