نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل


ناصرآغا… چوکس     
ضیاء الحق نے اپنے دورِ حکومت میں جب منشیات پر پابندی عائد کی اور منشیات فروشوں کی دکانوں پر تالے لگوائے تو افیم کی دکانوں کے تالے چومتے ہوئے نشہ نہ ملنے کی وجہ سے سخت غم و غصہ میں ضیاء الحق کو کوس رہے تھے کہ ظالم ہم نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔ واقعی نشہ نہ ملنے پر نشئی کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی لت سے بچائے نشئی حالت ِ نشہ میں اسقدر حواس باختہ ہو جاتا ہے کہ اسے اچھے برے کھوٹے کھرے اپنے پرائے عزت و بے عزتی شرم و حیا کی تمیز نہیں رہتی وہ اس کے سرور میں مست بے حس ہر طرح کی فکر سے آزاد حتیٰ کہ اسے کئی بار گندگی کے ڈھیر پر اپنے گرے ہونے کی بھی خبر نہیں رہتی ۔منشیات ((Drugsکے نشہ میں دھت سخت جسمانی ذہنی بیماریوں کی اذیتوں سے گذرنے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتا بلکہ نہ ملنے پر اس کے حصول کیلئے تن من دھن کی بازی لگا کر اس کا حصول ممکن بناتا ہے۔ نشہ کی قسموں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔شراب افیم بھنگ چرس سے بڑھ کر اب توشیشہ وغیرہ کئی کئی اقسام انسانیت اور انسان کیلئے وجود میں لائی جا رہی ہیں۔ شاعر حضرات کا پینا پلانا ۔۔۔۔۔۔جیسے علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا 
نشہ تو خون کی حدت کا نام ہے ساقی 
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
تو عدم نے کہا 
پی لیتے ہیں ہر آنکھ سے تھوڑی سی عدم
ہم فقیروں میں تکلف کی کوئی بات نہیں
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے
لازم ہے میکدے کی شریعت کا احترام
اے دور  روزگارذرا لڑکھڑا کے چل

اک جام تو پی لینے دے اے گردشِ دوراں
پھر تجھ کو بتاتا ہوں میں کون ہوں ؟کیا ہوں؟
واعظ شراب ناب کو اتنا نہ کوسیے! 
جنت میں آپ بھی پئیں گے اگر گئے
پی شوق سے واعظ تجھے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ تیرے قبضے میں ہے جنت تیرے گھر کی  (شکیل )
جناب ِ شیخ کا یہ نکتہ اپنی سمجھ میں نہ آسکا 
جو یہاں پیو تو حرام ہے جو وہاں پیو تو حلال ہے
شام کو مئے پی لی صبح توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
یہاں کشمکش پائی وہی سوداگری کی
میں یہ سمجھا تھا کہ میخانے کی دنیا اور ہے
یہ تو تھا شاعروں واعظوں اور حضرت شیخ کے درمیان نشہ کا معاملہ ڈرگزکے نشے کئی قسم کے ہیںدولت کا نشہ ، حکومت کا نشہ ،اقتدار ،کرسی کا نشہ،نشہ تو کسی بھی شے کا اچھا نہیں لیکن اقتدار اور کرسی کا نشہ سب سے خطرناک ہے ۔حکومت کے نشہ کی تاریخ شاہد ہے کہ اس میں مبتلا باپ بیٹے سگے بھائی نے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بننے کی داستانیں رقم کیں۔ظلم و ستم کا استعارہ بن کر اپنے کردارو نام کو گالی بنا ڈالا۔اسی طرح کے یزیدی سیاست کے پیروکارآج بھی کم نہیں جو ہوس اقتدار میں انسانیت سے گرنے کی شرمناک مثالیں قائم کر رہے ہیں وہ جب اقتدار میں تھے تو اپنی کم ظرفی بد اخلاقی میں اتنے مشہور ہوئے کہ کسی کی دستار ان سے محفوظ نہ رہی ۔
وہ جو کم ظرف تھے وہ صاحب میخانہ ہوئے 
بہت مشکل ہے کوئی دستار سلامت دیکھوں 
(فراز)
پھر ساقی اقتدار نے اپنے میخانے کی سخت توہین محسوس کرتے ہوئے اپنی غلطی پر نادم ہو کر سوچا!
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے  (محسن بھوپالی)
حکم ہوا 
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اُسے میکدے سے نکال دو
’’میکدہ سے نکلنا تھا کہ اب ساقی کی خیر نہ تھی اُسے جانور ،غدار اور نہ جانے کن القابات سے نوازا گیا ایوان اقتدار کے تالے چوم چوم کر گالیاں بکی جارہی ہیں اقتدار کا میکدہ تو میکدہ سر بازار نکل کر پورے کے پورے بازار کو تباہ و برباد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اور حواری ہیں کہ اُنہیں جو موجیں حاصل تھیں اور تماشائی خوامخواہ ہمیں راگ الاپ رہے ہیں۔
ویران ہے میکدہ خم و ساغر اُداس ہے
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
پھر اُنہی بہاروں کے متلاشی وہی ٹھمکے وہی راگ رنگ بے چین کیے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بھی جنت میں شراب طہور کا وعدہ فرمایا ہے اور اس دنیاوی شراب جسے اُم الخبائث قرار دیا گیا ہے سے منع فرمایا ہے شرابِ طہور پینے والوں کی مے الگ ہے یہ مئے حق پیتے ہیں اور انہیں خدمت کا نشہ لگ جاتا ہے حق و صداقت کا نشہ بھی کیا نشہ ہے اسے پینے والے ہی تو کہتے ہیں۔
    ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں 
اسے خوش بخت پیتے ہیں 
اور اُن کا کہنا ہے 
جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر
وہ میکدے بھی ہماری نظر سے گذرے ہیں  (صوفی تبسم)
ان کے پینے والوں کی غیرت زندہ ہوتی ہے ۔
شدت تشنگی میں بھی غیر ت میکشی نہ گئی 
اس نے جو پھیری آنکھ میں نے بھی جام رکھ دیا 
یہ مئے خدمت پینے والے 
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے  
مزہ تو تب ہے گر توں کو تھام لے ساقی (اقبالؒ)
ان حالات کا نوحہ کرنے کی بجائے ساقی کوثر سے رابطہ کرنا ہو گا اور 
بدلنا ہے تو مے بدلو نظام مے کشی بدلو
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا (فانی بدایوانی)
ہر ایرے غیرے سے پیتے ہوئے سوچنا ہو گا اور قرض کی مے نے یہ حال کر دیا
کب اُن کی محفل میں اپنی طرف دور جام آیا 
ساقی نے کچھ ملانہ دیا ہو شراب میں 
اور کہتے ہیں کہ ہماری فاقہ مستی ایک دن
 قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن 
جگنوئوں نے شراب پی لی ہے 
اب یہ سورج کو گالیاں دیں گے

ای پیپر دی نیشن