مستقل کرنے کامطالبہ اساتذہ کا حق،مستقلی کیلئے کوائف جمع کررہے ہیں
سیکرٹری محکمہ سکول ایجوکیشن فیصل فرید کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
کسی جگہ پر سکول کونسلز کے مثبت نتائج سامنے آئے اور کسی جگہ پر نہیں آئے
پیف اور پیما کا ماڈل بہت کامیاب ہے،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ مین ایجنڈا ہے
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
ناکامیاں راستہ بھولنے لگتی ہیں اور کامیابیاں قدم چومنے لگتی ہیں۔کسی معاشرے یا قوم کی سوئی ہوئی تقدیر بھی اْس وقت جاگنے لگتی ہے جب نظامِ مملکت چلانے والے اداروں کیلئے راست باز اور جفاکش عہدیداروں کا انتخاب کیا جائے۔ محکمہ سکول ایجوکیشن کے نئے تعینات ہونے والے سیکرٹری فیصل فرید بھی ایسے ہی دیانتدار، مدبر، محنتی اور خوش اخلاق بیوروکریٹس میں گنے جاتے ہیں جنہوں نے ورلڈ بینک سے لیکر ڈی جی پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب تک لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ 1988 میں پراونشل کیڈر میں سول سروس جوائن کرنے والے فیصل فرید جب سے لیکر اب تک متعدد ملکی اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ ورلڈ بنک کے علاوہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک، یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام، سیکرٹری ٹیکسز، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن کے ساتھ بھی انہوں نے کام کیا۔ گزشتہ دنوں فیصل فرید سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے آفس میں نوائے وقت کیلئے ہمیں خصوصی انٹرویو دیا۔ آئیے جانتے ہیں کہ محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب کس طرح کام کرتا ہے، انہوں نے تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے کیا منصوبہ بندی کی ہے، کون کون سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
نوائے وقت: سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کام کا طریقہ کار کیا ہے؟
فیصل فرید: محکمہ سکول ایجوکیشن کا مقصد ہر بچے کو تعلیم کا حق فراہم کرنا ہے۔ محکمہ سکول ایجوکیشن حکومت کے بڑے اداروں میں سے ایک بڑا ادارہ ہے۔ پنجاب اور پاکستان میں اس محکمے سے زیادہ افرادی قوت کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ ہمارے پاس ساڑھے سات لاکھ کے قریب اساتذہ ہیں۔ اس کے علاوہ نان ٹیچنگ سٹاف ہے۔ پھر اس کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز ہیں، ڈی ای اوز ہیں، پھر ان کے ڈپٹی ڈی اوز ہیں، پھر اے ای اوز کا ایک پورا انتظام ہے۔
نوائے وقت: سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آپ کا مین ایجنڈا کیا ہے، کیا کیا اقدامات اٹھانے جارہے ہیں؟
فیصل فرید: ہمارا مین ایجنڈا زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولز میں لانے کا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر فوکس کرنا مین ایجنڈا ہے۔ بچوں کی بہترین پڑھائی کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔
نوائے وقت:محکمہ سکول ایجوکیشن کے تحت جو ڈیپارٹمنٹس کام کررہے ہیں جیسے کہ پیف ہے اور دوسرے، ان کی کارکردگی کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
فیصل فرید: محکمہ سکول ایجوکیشن سے 12 باڈیز منسلک ہیں، جس میں پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن، چلڈرن لائبریری کمپلیکس پنجاب، پنجاب ایگزامینیشن کمیشن، نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ، پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی، قائداعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، پنجاب مانیٹرنگ اینڈ امپلی منٹیشن یونٹ سمیت 12 منسلک محکمے ہیں۔
پیف بہت شاندار کام کررہا ہے۔ کئی بچے ایسے ہیں جو ریگولر سکولز میں نہیں آتے، جس جگہ گورنمنٹ کے پاس سکول قائم کرنے کے ریسورسز نہیں تھے اس کے لیے پیف کا قیام عمل میں آیا، کہ سکول عمارت پرائیویٹ سیکٹر کی ہوگی، مینجمنٹ بھی پرائیویٹ سیکٹر کی ہوگی، جو بچے اس میں داخل ہونگے، ان کی فیس ہم ادا کریں گے۔ اور اس کی مانیٹرنگ بھی ہم کرتے ہیں۔ پیف ایک کامیاب ماڈل ہے۔
نوائے وقت:کیا آپ کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سال سکولز کی تعداد بڑھائی جائے، یا سکول ایجوکیشن سے منسلک اداروں کے سکولوں کی تعداد بڑھائی جائے؟ اگر ایسا ہے تو کتنے سکولز نئے بنیں گے؟
فیصل فرید: ہمارا مقصد زیادہ سکولز بنانا نہیں بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر فوکس کرنا مین ایجنڈا ہے۔ پیف اور پیما کا ماڈل بہت کامیاب ہے۔ اور جو ایک اور ماڈل اپنایا گیا آفٹر نون سکول کا کہ اْسی سکول کی عمارت کو استعمال کر کے آفٹر نون سکول لگائے جائیں۔
نوائے وقت: انصاف آفٹر نون سکولز کا مستقبل کیا ہے؟ سننے میں آرہا ہے کہ انہیں بند کردیا جائے گا؟
فیصل فرید: آفٹرنون سکولز بند نہیں ہوں گے۔ آفٹر نون سکولز ایک بہترین قدم ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکولز میں لانے کیلئے یہ ایک عمدہ منصوبہ ہے۔ بلکہ ہمارا ہدف ہے کہ اس سال بڑی تعداد میں بچوں کو داخل کیا جائے۔ رواں سال مزید 90 ہزار بچے آفٹر نون سکولز میں داخل کرنے کا منصوبہ ہے۔
نوائے وقت: تعلیمی نظام کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟ آپ اس کی بہتری میں کیا حصہ ڈال رہے ہیں؟
فیصل فرید: جو روٹینز تھیں جس میں ہم ڈپٹی کمشنرز کو اسائن کرتے تھے کہ آپ جائیں سکولز کا وزٹ کریں، اور پھر دیکھیں گے کہ کون سا ضلع کس سٹیٹس پر کھڑا ہے، ہم اس مانیٹرنگ رجیم کو ڈیجیٹل انوائرمنٹ میں تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہمارا ایک بہت ہی اچھا سسٹم ہے جسے ہم سکول امپروومنٹ فریم ورک کہتے ہیں، وہ ابھی امپلیمنٹ نہیں ہوا تھا دو سال میں، اس کو بھی کمیونٹی کی مدد سے امپلیمنٹ کریں گے۔
نوائے وقت: پرائیویٹ سکولز کے تدریسی اور انتظامی معاملات کی مانیٹرنگ کیلئے بنی سکول کونسلز کے خاطر خواہ نتائج نہیں آرہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا اس کے مثبت نتائج بھی سامنے نہیں آرہے؟
فیصل فرید: کسی جگہ پر سکول کونسلز کے مثبت نتائج سامنے آئے اور کسی جگہ پر نہیں آئے، اسے مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سکول کونسلز کو مزید مضبوط کریں گے۔ تربیت کریں گے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں گے۔ سکول کی ایک بچے کی طرح پرورش کرنا اس کو مضبوط بنانا میرا مقصد ہے، ہرسکول پراپر فنکشن کرے۔ اگر ہر سکول پراپر فنکشن کرے گا تو یقیناً لوگوں کا اعتماد دوبارہ بحال ہوگا۔
نوائے وقت: سکولز میں صاف پانی کے منصوبوں کے متعلق آپ کیا اقدامات اٹھارہے ہیں؟
فیصل فرید: بچوں میں 60 فیصد امراض صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پھلتے پھولتے ہیں، جب آپ سکولوں میں صاف پانی مہیا کردیں تو بچے صحت مند رہ سکتے ہیں،یہ ہیلتھ کا کام ہے لیکن ہم اس کو اپنے سکولز میں ضم کررہے ہیں۔
نوائے وقت: جو اساتذہ مستقلی کے لیے مطالبہ کرتے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں مستقل کیا جائے گا؟
فیصل فرید: اساتذہ کا مستقلی کا مطالبہ کرنا ان کا حق ہے، ہم اس کے لیے ڈیٹا حاصل کر رہے ہیں کہ کس طریقے سے انہیں ریگولرائز کرسکتے ہیں۔ کیا تجاویز مہیا ہیں۔ اس کے معاشی اور دیگر تمام معاملات کی تفصیلات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن بہرحال یہ اساتذہ کا جائز حق تو ہوتا ہے کہ انہیں جو سروسز دے رہے ہیں اسے ریگولرائز کریں۔ یہ اساتذہ کا حق ہے کہ ان کے پینشنز سمیت دیگر مسائل حل ہوں۔